ایسے مزار پر حاضری کا کیا حکم ہے جس کے مدفون کے بارے میں علم نہ ہو؟
سوال نمبر:5223
السلام علیکم! جناب عالی قرآن و احادیث کی روشنی میں مسلمان آولیاء اللہ، مومن، متقی، پرہیزگار، باشریعت، دیندار اور دین کی تعلیم و ترویج کیلئے معتبر اور ذمہ دار، یعنی اللہ کے دین کی تبلیغ واشاعت انکی زندگی کا اصل مقصد ہوتا تھا۔ اولیاء اللہ کی زندگی سے متعلق انکے حسب و نسب، والدین اولاد، مرشدین اور علمی درجات وغیرہ انکی اپنی تصانیف سے سچی معلومات ملتی ہیں۔ سینکڑوں سالوں سے تمام دنیا میں لوگ اپنے عزیز واقارب کو ان کی موت پر اپنے قریب ترین جگہ پر تدفین کرتے ہیں، پاکستان بننے سے پہلے کی اس طرح کی بے شمار قبریں ہمیں اکثر جگہوں پر نظرآتی ہیں جن کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتیں۔ مفاد پرست لوگ ان نامعلوم قبروں پر مقبرے بنا کر اور مختلف جھوٹی روایات گڑھ کر اپنا کاروبار شروع کردیتے ہیں۔ ان مقبروں کے ساتھ بزنس کی دوکانیں بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ آپ سے شریعت اسلامی کے مطابق سوال ہے کہ ان قبروں پر جو مقبرے بنے ہوئے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ان سے منسلک غیر قانونی معاملت حلال ہونگے؟ ان قبروں پر جو چندہ کی رقم جمع ہوتی ہے اس کا معاملہ کیا ہوگا؟ جزاک اللہ۔
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد عثمان انصاری
- مقام: کراچی۔ پاکستان
- تاریخ اشاعت: 06 اپریل 2019ء
موضوع:زیارت قبور
جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
- جن لوگوں نے دین کی ترویج و اشاعت کے لیے کام کیا ہے اور اخلاص و تقویٰ کے
ساتھ اپنی زندگی بسر کی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام اور ان کی خدمات کو صدیوں
بعد بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ ان کا تعارف اور ان کی علمی و عملی خدمات بھی لوگوں
کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ اس لیے ایسے مقبرے جن کے مدفون کے بارے میں کوئی مستند روایت
موجود نہ ہو‘ پر حاضری دینا بےفائدہ ہے۔
- غیرشرعی معاملات خواہ کعبۃ اللہ سے منسلک کیے گئے ہوں وہ جائز و حلال نہ ہوں
گے‘ کسی مقبرے سے منسلک کرنا تو دور کی بات ہے۔ اس لیے کسی بھی درگاہ پر غیرشرعی
و غیر قانونی معاملات ہرگز جائز نہیں ہیں۔
- اگر واقعتاً کہیں جعلی قبر بنا کر کوئی دھندہ کیا جا رہا ہے تو یہ قطعی طور
پر غیرقانونی عمل ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدن بھی دھوکے کا مال ہے۔ اس کی بندش
کے لیے عدالت سے رجوع کیا جانا چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی:محمد شبیر قادری
Print Date : 24 November, 2024 07:06:31 AM
Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5223/