Fatwa Online

کیا کرامت کے صدور کا اختیار ولی کے پاس ہوتا ہے‌؟

سوال نمبر:5206

کرامات اولیاء حق ہے مگر کیا ولی کی کرامت اس ولی کے اختیار میں ہوتی ہے‌؟ اس کی دلیل کیا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: فہد صدیق

  • مقام: گوجرانوالہ پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 14 جنوری 2019ء

موضوع:تصوف

جواب:

کسی غیرنبی سے خارقِ عادت، مافوق الفطرت اور خلافِ عقل فعل کا صدور کرامت کہلاتا ہے۔ کرامت کا صدور اگرچہ بندے سے ہوتا ہے مگر اس کا فاعلِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی شخص کچھ چاہ بھی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًاO

اور تم خود کچھ نہیں چاہ سکتے سوائے اس کے جو اللہ چاہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔

الدَّهْر، 76: 30

اور سورہ تکویر میں فرمایا ہے:

وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَO

اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

التَّکْوِيْر، 81: 29

اس لیے جب عین فطرت اور عادت کے مطابق ہونے والے افعال کا صدور بھی بغیر حکمِ الٰہی کے ممکن نہیں تو خارقِ عادت واقعہ بغیر اذنِ الٰہی کے کیسے وقوع پذیر ہوسکتا ہے؟ اس لیے کرامت کا اذن بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور وہ جس کو جتنا چاہے اس میں اختیار عطا فرما دے۔ ارشادِ ربانی ہے:

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَـنْـزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.

(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔

آل عِمْرَان، 3: 26

حدیثِ قدسی میں بیان کیا گیا ہے کہ نیک و صالح ہستیوں کو ان کی عبادت و ریاضت اور صالحیت کے سبب اس قدر قربِ خداوندی عطا ہوتا ہے کہ ان کا دیکھنا، سننا پکڑنا اور چلنا عین اطاعتِ خداوندی میں آجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ سے کرامات کا صدور ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے قرب حاصل نہیں کرتا جو مجھے پسند ہیں اور میں نے اُس پر فرض کی ہیں۔ مزید فرمایا:

وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ.

اور میرا بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اُس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا قدم بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور اسے عطا فرماتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ پکڑے تو ضرور میں اسے پناہ دیتا ہوں اور کسی کام میں مجھے تردد نہیں ہوتا جس کو میں کرتا ہوں مگر مومن کی موت کو برا سمجھنے میں، کیونکہ میں اس کے اس برا سمجھنے کو برا سمجھتا ہوں۔

بخاري، الصحيح، كتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، رقم: 6137، بيروت: دار ابن كثير اليمامة

درج بالا تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے جس قدر چاہے اختیار عطا فرماتا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ ہم اس اختیار کا ناپ تول نہیں کرسکتے۔

اولیاء اللہ کے اس اختیار کی مثالیں قرآن و حدیث میں بےشمار مواقع پر بیان کی گئی ہیں۔ اختصار کی خاطر ان میں دو مثالیں درج ذیل ہیں:

  1. حضرت سلمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا فرمایا تو وہاں موجود ایک جن نے اس کے لیے اپنے مقام سے اٹھنے تک کی مہلت مانگی لیکن آپ علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص آصف بن برخیا نے پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت لاکر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ قرآنِ مجید میں یہ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ.

(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نا شکری، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کے لئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز، کرم فرمانے والا ہے۔

النَّمْل، 27: 40

  1. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر بھیجا جس کا سردار حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، پھر اچانک حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے خطبہ کے دوران پکارنے لگے:

يَا سَارِيَةُ الْجَبَل، يَا سَارِيَةُ الْجَبَل، يَا سَارِيَةُ الْجَبَل، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ عُمَرُ، فَقَال: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هُزِمْنَا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ سَمِعْنَا صَوْتًا يُنَادِي: يَا سَارِيَةُ إِلَى الْجَبَل ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا إِلَى الْجَبَل فَهَزَمَهُمُ اللهُ تَعَالَى، وَكَانَتِ الْمَسَافَةُ بَيْنَ الْمَدِينَةِ حَيْثُ كَانَ يَخْطُبُ عُمَرُ وَبَيْنَ مَكَانِ الْجَيْشِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ.

اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو! اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو! اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو! پھر لشکر کا قاصد آیا تو حضرت عمر عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا۔ وہ عرض گذار ہوا: اے امیر المومنین ہم شکست خوردہ ہو گئے، ہم اسی حالت میں تھے کہ ہم نے ایک آواز سنی، کوئی پکار رہا تھا: اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو، یہ بات اس نے تین بار کہی، تو ہم نے اپنی پشت کو پہاڑ کی طرف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دیدی اور جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے، اس وقت مدینہ منورہ اور لشکر کی جگہ کے درمیان ایک ماہ کی مسافت تھی۔

صهيب عبد الجبار، الجامع الصحيح للسنن والمسانيد، 15: 333، الكتاب غير مطبوع

معلوم ہوا کہ کرامت اللہ تعالیٰ کا اپنے اولیاء اور نیک بندوں کو عزت و توقیر دینے کا نام ہے۔ جس کو جس قدر چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 27 December, 2024 06:24:41 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5206/