Fatwa Online

کیا سیدنا علی علیہ السلام کاتبین وحی میں شامل ہیں؟

سوال نمبر:5182

قرآنِ‌ کریم کلامِ الٰہی ہے مگر اس کی تدوین سے متعلق اختلافات ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کا نام کاتبینِ وحی میں‌ شامل ہی نہیں جبکہ امام سیوطی نے ان کو بھی کاتبینِ‌ وحی میں شامل کیا ہے۔ تدوین قرآن و حدیث پر مفصل جواب ارشاد فرمائیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: وسیم رضا

  • مقام: چک سواری، آزاد کشمیر
  • تاریخ اشاعت: 03 دسمبر 2018ء

موضوع:فضائل و مناقبِ‌ اہلبیتِ اطہار  |  حدیث اور علم حدیث

جواب:

امام سیوطی اپنے اس قول میں منفرد نہیں ہیں‘ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (مُتَوَفّٰیٰ 923ھ ) نے ’المواھب اللدنیہ، الفصل السادس، جلد 1، صفحہ 434 پر کاتبینِ وحی کے اسمائے گرامی درج کیے ہیں ان میں سیدنا علی علیہ السلام کا اسمِ گرامی بھی شامل ہے۔ آپ کے کاتبِ وحی ہونے پر مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنی کتاب الوثائق السیاسیہ میں مختلف دستاویزات پر آپ کا نام بطور کاتب قبول کیا ہے۔ تاریخ و سیرت کی بنیادی کتب البدایہ و النہایہ، الاستیعاب، تاریخ طبری، تاریخِ یعقوبی، الوزراء و الکتاب، تجارب الامم، التاریخ الکامل، تہذیب الکمال اور العجالۃ السنیہ میں سیدنا علی علیہ السلام کو کاتبِ وحی شمار کیا گیا ہے۔ ان کی تفصیلات ڈاکٹر احمد عبدالرحمن عیسیٰ کی تصنیف ’کتاب الوحی‘ اور ابن حریرہ الانصاری کی ‘المصباح المضئ فی کتاب النبی الامی’ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس لیے یہ بات قطعی طور پر بےبنیاد ہے کہ سیدنا علی علیہ السلام کاتبینِ وحی میں شامل نہیں تھے۔

قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا، کبھی ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں، نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی، یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل؛ بلکہ ناممکن تھا، ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا لیتے تھے اور زمانہ کے لحاظ سے نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے؛ چناں چہ پورا قرآن مجید بلا کسی کم و کاست کے لکھا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہٴ مبارکہ میں موجود تھا، اس میں نہ تو کوئی آیت لکھنے سے رہ گئی تھی اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ سب سورتیں الگ الگ تھیں، اور متعدد چیزوں پر لکھی ہوئی تھیں، کتابی شکل میں جلد سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی:

قد کان القرآنُ کُلُّه مکتوباً فی عَهْدِه صلی اللّٰه علیه وسلم لکن غیرَ مجموعٍ في مَوضِعٍ واحدٍ.

پورا قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا ہوا تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔

(الکتابي، ج: 2، ص: 384)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کی محقق نقلیں تیار کرکے ہر طرف پھیلایا؛ بلکہ پوری امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔ ان تمام واقعات کی تفصیل آپ تدوینِ قرآن کی کسی بھی کتاب سے ملاحظہ فرما سکتے ہیں‘ یہاں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔

اسی طرح حدیث و سنت کی تدوین کا سلسلہ بھی عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک خاص انداز میں شروع ہو گیا تھا اور صحابہ کرام نے اس کی حفاظت کو اپنا مقصد حیات قرار دے لیا تھا۔ ابتداً میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے صحابہ کرام کو کتابت حدیث سے اس اندیشے کی بنا پر روک دیا تھا کہ کہیں احادیث رسول اور آیاتِ قرآن میں اختلات نہ ہو جائے، لیکن جب یہ اندیشہ نہ رہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے قرآن مجید احادیث میں فرق کرنا آسان ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث کی کتابت کی بھی اجازت دے دی۔ چنانچہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

قلت یارسول الله! انا نسمع عنک اشیاء افنکتبها؟ قال: اکتبوا ولا حرج.

میں نے کہا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ سے بہت سی باتیں سنتے ہیں‘ کیا یہ باتیں لکھ لیا کریں؟ آپ نے فرمایا: لکھ لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں۔

متعدد صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی احادیث مبارکہ کے مجموعے تیار کیے جنہیں صحیفہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ان میں سے صحیفہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ، صحیفہ سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ، الصحیفة الصادقہ (حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ  کا مجموعہ) اور صحیفہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو زیادہ شہرت ملی۔ مستدرک حاکم میں ہے:

عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم  انه کتب الی اهل الیمن بکتاب فیه الفرائض و السنن و الدیات و بعث مع عمرو بن حزم.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل یمن کے پاس عمرو بن حزم کی معرفت ایک کتاب لکھوا کر بھیجی جس میں فرائض، سنن اور دیات کی تفصیل بیان فرمائی گئی تھیں۔

اس کتاب کو ہم حدیث کی مستقل کتاب قرار دے سکتے ہیں جو خود نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے لکھوائی۔ اسی طرح اور بھی متعدد صحائف کا پتہ چلتا ہے جو عصر نبوت میں ضبط تحریر میں آئے اور لوگ ان سے فیض یاب ہوئے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد تابعین و تبع تابعین کا عہد سعادت جلوہ گر ہوا۔ ان کے سینے بھی ارشاداتِ پیغمبر کی ضوفشانیوں سے منور تھے۔ چنانچہ انہوں نے بھی حفاظت حدیث اور اس کی جمع و تدوین کو اپنا مقصد حیات ٹھہریا۔ اس عظیم الشان گروہ کا ہر فرد حدیث کی حفاظت کے لئے کوشاں ہوا اور اللہ نے ان حضرات کو اس مقصد عظیم میں کامیابی سے ہم کنار فرمایا۔ جس رفتار سے زمانہ آگے بڑھتا گیا حدیث کی خدمت کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ آئمہ اربعہ میں سے مؤطا امام مالک کو حدیث اور فقہ کے شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔ امام شافعی کی کتاب الام اپنے موضوع کی عدیم المثال کتاب ہے۔ امام احمد بن حنبل پر حدیث کی محبت کا جذبہ اس قدر غالب تھا کہ مسند امام احمد جیسی بے نظر کتاب معرض تصنیف میں آگئی۔ پھر خامانِ حدیث کا دائرہ صرف ملک عرب کی حدود میں محدود نہیں رہا، بلکہ بلخ و بخارا اور سمرقند وغیرہ کے دوردراز علاقوں تک پہنچ گیا۔ صحاح ستہ اور دیگر بہت سی کتب حدیث ضبط کتابت میں آئیں، شائقین حدیث نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور انتہائی شوق و ذوق سے خود بھی ان کا مطالعہ کیا اور دیگر شائقین کو بھی ان کی تعلیم دی۔ جگہ جگہ تدریس حدیث کے حلقے قائم ہوئے اور ہر حلقے میں بے شمار لوگ شرکت کرنے لگے۔ یہ علاقے مرکز اسلام مکہ او رمدینہ سے بہت دور تھے، لیکن ان علاقوں میں حدیث کی تحریری اور تدریسی طور پر بے پنا خدمت ہوئی۔ تدوینِ حدیث کا کام نہایت مربوط انداز میں سرانجام پایا ہے، جس کی تفصیلات مختلف کتب سے دیکھی جاسکتی ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 23 November, 2024 02:35:44 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5182/