Fatwa Online

خانہ کعبہ پر پہلی نظر کے وقت دعا کی قبولیت والی روایت کی کیا حقیقت ہے؟

سوال نمبر:5155

السلام علیکم مفتی صاحب! (1) میں‌ نے دس دن مکہ میں‌ اور دس دن مدینہ میں‌ قیام کیا اور تمام نمازیں‌ مسجدِ‌ حرام اور مسجدِ‌ نبوی میں باجماعت ادا کیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں‌ کہ وہاں‌ موجود امام کی اقتداء میں‌ ہماری نماز نہیں‌ ہوتی‘ تو کیا میں‌ بھی وہاں ادا کی ہوئی اپنی نمازیں دہراؤں؟ (2) دوسرا سوال یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں‌ لوگ ہمہ وقت نوافل ادا کرتے ہیں‘ کیا خانہ کعبہ میں ممنوعہ اوقات میں‌ بھی نوافل ادا کیے جاسکتے ہیں؟ (3) کیا ہر طواف کے بعد نوافل ادا کرنا لازم ہے؟ (4) اور آخری سوال یہ کہ کیا خانہ کعبہ پر جب بھی نظر پڑے تو دعا قبول ہوتی ہے یا صرف پہلی بار نظر پڑنے پر دعا قبول ہوتی ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: فرقان مشتاق

  • مقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 08 جنوری 2019ء

موضوع:عمرہ کے احکام و مسائل  |  طواف

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ آپ کی نمازیں ادا ہو گئی ہیں، دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

2۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلوع آفتاب (سورج نکلتے وقت)، وقت استواء (جب سورج بالکل درمیان میں ہوتا ہے) اور غروب آفتاب (سورج ڈوبتے وقت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَيٍّ عَنْ اَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُا ثَـلَاثُ سَاعَاتٍ کَانَ رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَنْهَانَا اَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ اَوْ اَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّی تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّی تَمِيلَ الشَّمْسُ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّی تَغْرُبَ.

موسیٰ بن علی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے اور اموات کو دفن کرنے سے روکتے تھے: ایک طلوع آفتاب کے وقت جب تک وہ بلند نہ ہو جائے، دوسرا ٹھیک دوپہر کے وقت یہاں تک کہ زوال نہ ہو جائے، تیسرا غروبِ آفتاب کے وقت تاوقتیکہ وہ مکمل غروب نہ ہو جائے۔

  1. مسلم، الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الأوقات التي نهي عن الصلاة فيها، 1: 568، رقم:831، بيروت: دار إحياء التراث العربي
  2. احمد بن حنبل، المسند، 4: 152، رقم: 17415، مصر: موسسة قرطبة

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّی تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغِیبَ الشَّمْسُ.

صبح کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے۔

  1. بخاري، الصحیح، كتاب مواقيت الصلاة، باب لا يتحرى الصلاة قبل غروب الشمس، 1: 212، رقم:561، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الأوقات التي نهي عن الصلاة فيها، 1: 567، رقم:827

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

نَهَی رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ صَلَاتَیْنِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ.

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو نمازوں سے منع فرمایا یعنی فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور عصر کے بعد یہاں کہ سورج غروب ہو جائے۔

  1. بخاري، الصحیح، كتاب مواقيت الصلاة، باب لا يتحرى الصلاة قبل غروب الشمس، 1: 213، رقم:563
  2. مسلم، الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الأوقات التي نهي عن الصلاة فيها، 1: 566، رقم:825

فقہاء کرام نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے کہ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک فجر کی سنتوں کے علاوہ کوئی بھی نفلی نماز جائز نہیں ہے ہاں اگر فوت شدہ نماز باقی ہو تو قضاء کر سکتے ہیں۔ امام قدوری فرماتے ہیں:

یُکْرَهُ أَنْ یَتَنَفَّلَ بَعْدَ صَلَاةِ الْفجْرِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعد صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ؛ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ یُصَلِّيَ فِي هٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ الْفَوَائِتِ، وَیَسْجُدَ لِلتِّلاَوَةِ، وَیُصَلِّی عَلَی الْجَنَازَةِ، وَلَا یُصَلِّي رَکعَتَي الطَّوَافِ. وَیُکْرَهُ أَنْ یَتَنَفَّلَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ بِأَکْثَرَ مِنْ رَکْعَتَيِ الْفَجْرِ وَلَا یَتَنَفَّلُ قَبْلَ الْمَغْرِبِ.

نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ اور ان دونوں اوقات میں فوت شدہ نمازیں قضاء کرنے، سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور طواف کی دو رکعت ادا نہ کرے۔ اور صبح صادق کے بعد سنتِ فجر سے زائد نوافل پڑھنا مکروہ ہے اور نہ ہی مغرب سے پہلے نفل پڑھے۔

أحمد بن محمد، مختصر القدوري: 84-85، بیروت، لبنان: مؤسسة الریان

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ممنوع اوقات میں نوافل کی ادائیگی جائز نہیں، اس لیے خانہ کعبہ میں بھی ممنوع اوقات میں نوافل ادا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

3۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى.

اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو۔

البقرة 2: 125

اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ مطلب بن ابو وداعہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ سَبْعِهِ جَاءَ، حَتَّى يُحَاذِيَ بِالرُّكْنِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِي حَاشِيَةِ الْمَطَافِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطُّوَّافِ أَحَدٌ.

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ ساتوں طواف سے فارغ ہوچکے تو رکن یمانی کے قریب پہنچ کر طواف والی جگہ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی آڑ نہ تھی۔

ابن ماجه، السنن، كتاب المناسك، باب الركعتين بعد الطواف، 2: 986، رقم:2958، بيروت: دار الفكر

تحیۃ الطواف: حج میں فرض طواف کے بعد مقامِ ابراہیم پر دو رکعات نوافل نماز ادا کرنا واجب ہے۔ اس کے علاوہ عمرہ سمیت ہر طواف کے بعد دو رکعات ادا کرنا سنت ہے۔ اگر طواف کے بعد مکروہ وقت ہو تو انتظار کیا جائے اور مکروہ وقت کے گزرنے پر نوافل ادا کیے جائیں۔

4۔ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی انسان پر قربِ خداوندی کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس وقت دعا قبول ہونے کی قوی امید رکھی جاسکتی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں پہلی نظر کے ساتھ دعا کی قبولیت کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی۔ حضرت ابو امامہ باھلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تُفْتَحُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيُسْتَجَابُ الدُّعَاءُ فِي أَرْبَعَةِ مَوَاطِنَ: عِنْدَ الْتِقَاءِ الصُّفُوفِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَعِنْدَ نُزُولِ الْغَيْثِ، وَعِنْدَ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَعِنْدَ رُؤْيَةِ الْكَعْبَةِ.

آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور چار مقامات میں دعا قبول ہوتی ہے: جب صفیں اللہ کی راہ میں (جنگ کے لیے) مل کر کھڑی ہوں، بارش برستے وقت، نماز قائم ہوتے وقت اور دیدارِ کعبہ کے وقت۔

  1. طبراني، المعجم الكبير، 8: 169، رقم: 7713، الموصل: مكتبة الزهراء
  2. بيهقي، السنن الكبرى، كتاب صلاة الاستسقاء، باب طلب الإجابة عند نزول الغيث، 3: 360، رقم:6252، مكة المكرمة: مكتبة دار الباز

ایک روایت میں ہے کہ:

كَانَ النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا دَخَلَ مَكَّةَ فَرَأَى الْبَيْتَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَكَبَّرَ وَقَالَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْكَ السَّلاَمُ فَحَيِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلاَمِ، اللَّهُمَّ زِدْ هَذَا الْبَيْتَ تَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَتَكْرِيَما وَمَهَابَةً وَزِدْ مَنْ حَجَّهُ أَوِ اعْتَمَرَهُ تَكْرِيمًا وَتَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَبِرًّا.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ شہر میں داخل ہوتے اور خانہ کعبہ پر نظر پڑتی تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور اللہ اکبر کہتے اور یہ دعا پڑھتے: اے اللہ تو سلام ہے اور تری طرف سے سلام اترتا ہے، لہٰذا ہمارے پروردگار ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ۔ اے اللہ اس گھر کی بزرگی وتعظیم وتکریم ورعب وھیبت میں مزید اضافہ فرما۔ اور جو کوئی اس کا حج یا عمرہ کرے، اس کی عزت وتکریم وبزرگی وعظمت اور بھلائی میں اضافہ فرما۔

بيهقي، السنن الكبرى، كتاب الحج، باب القول عند رؤية البيت، 5: 73، رقم:8995

مذکورہ احادیث کی اسناد ضعیف ہیں لیکن فضائل کے باب میں ان احادیث کو نقل کرنے میں حرج نہیں۔ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی دعا مانگنی چاہیے‘ قبول و رد کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 22 November, 2024 09:05:47 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5155/