Fatwa Online

کیا بینک ضمانت کے ذریعے لین دین جائز ہے؟

سوال نمبر:5135

السلام علیکم! بینک گارنٹی کے ذریعے لین دین جائز ہے یا نہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام: جاوید اقبال

  • مقام: میانوالی
  • تاریخ اشاعت: 19 نومبر 2018ء

موضوع:مالیات

جواب:

بینک ضمانت (Bank Guarantee) دورِ حاضر کی اقتصادیات کا اہم حصہ ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بینک ضمانت‘ بینک کی طرف سے کیا جانے والا ایسا وعدہ ہے جو دو کاروباری فریقین کو مالی یا لین دین کے معاملات طے کرنے میں درکار ہوسکتا ہے۔ عموماً بینک ضمانت اس وقت جاری کی جاتی ہے جب کوئی فریق اسے بینک سے طلب کرتا ہے اور وہ فریق اپنی اس طلب میں ضمانت کی رقم اور اس کی مدت کا تعین کرتا ہے اور اس امر کا بھی ذکر کرتا ہے کہ یہ کس مد میں لی جار رہی ہے۔ بینک اس مطالبہ پر غور کرتا ہے‘ طالب کے سابقہ ریکارڈ کی چھان بین کرتا ہے اور اس بات سے مطمئن ہو کر کہ ضمانت کا طالب واقعتاً مالی اور معنوی طور پر حسب ضرورت عند الطلب اس کی ادائیگی کرسکتا ہے تو بینک اپنی طرف سے فریقِ ثانی کو ضمانت دیتا ہے اور مقرر مدت تک رقم ادا نہ ہونے کی صورت میں خود رقم ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ بینک ضمانت کو کرنسی کے متبادل کے طور پر قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے جس میں‌ لین دین کرنا شرعاً اور قانوناً جائز ہے۔ عام طور پر بینک‘ ضمانت طلب کرنے والے سے ضمانت کی پچیس فیصد (%25) نقد رقم بطور انشورنس اپنے پاس جمع کرتا ہے۔

ضمانت کے اس وعدے کے پیچھے دراصل بینک کا مالی فائدہ کار فرما ہوتا ہے۔ یعنی بینک تمام معاملات میں ثالث اور ضامن بننے کیلئے کمیشن وصول کرتا ہے جس کا تناسب مختلف جگہوں پر مختلف ہوتا ہے۔ گویا اس ذمہ داری اور خدمت کے عوض بینک اپنا کمیشن وصول کرتا ہے۔ اسی کمیشن کے سبب ’بینک ضمانت‘ شرعاً محلِ نظر ہے۔ دورِ جدید کے بعض علماء اس کمیشن کو خدمات کا معاوضہ قرار دیکر اس کے جواز کے قائل ہیں جبکہ کچھ علماء نے ضمانت پر کمیشن لینے کو ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ  جمہور آئمہ اس اصول کے قائل ہیں کہ ضمانت فراہم کرنے پر کوئی معاوضہ نہ لیا جائے۔ اس کے عدم جواز کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے اگر بالفرض بینک ضمانت کی رقم خود ادا کر کے ضمانت لینے والے فریق سے اصل رقم اور کمیشن دونوں حاصل کرے تو یہ ایسا قرض بن جاتا ہے جو نفع لانے کا موجب ہو‘ اس صورت میں یہ سود ہونے کے سبب ناجائز ہوگا۔

ہماری دانست میں اس کا جائز طریقہ کار یہ ہوسکتا ہے کہ ضمانت کا طلبگار ضمانت فراہم کرنے والے بینک کے پاس اتنی ہی مالیت کی کوئی شے بطور رہن رکھوائے‘ بینک معاونت یا ثالثی کے پہلے سے طے شدہ اخراجات (charges) وصول کر لے جن میں بعد ازاں کوئی اضافہ نہ کیا جائے۔ اس صورت میں بینک اور ضمانت کے طلبگار دونوں کا فائدہ بھی ہے اور کسی پر ظلم بھی نہیں۔ لیکن اگر بینک مدت میں اضافے پر مزید رقم کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ سود ہے جس کی شرعاً ممانعت ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 16 April, 2024 05:56:35 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5135/