Fatwa Online

غیرملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:5117

السلام علیکم! حضرت ایک آدمی ڈالر خرید کر ذخیرہ اندوزی کرتا ہے اور جب مہنگے ہو جاتے ہے بیچ دیتا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد آصف خان

  • مقام: ڈیرہ اسماعیل خان
  • تاریخ اشاعت: 17 نومبر 2018ء

موضوع:ذخیرہ اندوزی و چور بازاری

جواب:

ذخیرہ کی جانے والی اشیاء مختلف اقسام کی ہوتی ہیں‘ جیسے: ضروریات، آسائشات اور تعیّشات وغیرہ جبکہ ذخیرہ اندوزی کی بھی کئی صورتیں ہیں اس لیے کسی ایک شے یا ایک قسم کا حکم سب پر نہیں لگایا جاسکتا۔ مثال کے طور پر اشیائے ضرورت یعنی اشیائے خورد و نوش‘ غلہ اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء کو کچھ دیر کے لیے ذخیرہ کرنا تاکہ اس سے مناسب منافع حاصل کیا جاسکے‘ جائز ہے۔ تاہم اس میں اتنی تاخیر کرنا کہ جس سے لوگ تنگی میں مبتلا ہو کر انتہائی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہو جائیں‘ گناہ ہے۔ گویا اشیائے ضرورت اگر بازار میں آسانی سے دستیاب ہوں اور ان کے حصول کے لیے لوگوں کو کسی طرح کی تنگی اور قلّت کا سامنا نہ ہو تو مستقبل کی پیش بندی کے لیے انہیں ذخیرہ کرنا جائز ہے‘ لیکن اگر اس کا مقصد مصنوعی قلت پیدا کرنا ہو تو ناجائز ہوگا۔ اشیائے ضرورت کی مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگے داموں فروخت کرنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملعون قرار دیا ہے۔

اشیائے آسائشات و تعیشات کی بھی ایسی ذخیرہ اندوزی جس سے لوگوں کو تنگی لاحق ہو‘ ناجائز ہے مگر اس میں قدرے رعائت دی گئی ہے۔ مناسب منافع کے لیے ان اشیاء کو بھی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی بھی مصنوعی قلت پیدا کرنے میں شریک ہونا جائز عمل نہیں ہے۔ ڈالر یا دیگر غیرملکی کرنسیاں اسی زمرے میں آتی ہیں۔ اگر کسی شخص نے بازار سے ڈالر کی اتنی مقدار خرید کر ذخیرہ کر لی ہے جس سے قیمت پر اثر پڑا ہے تو ناجائز ہے‘ اور اگر معمولی مقدار میں ذخیرہ کیا ہے جس سے قیمت متاثر نہیں‌ ہوئی تو کوئی حرج نہیں۔ ذخیرہ اندوزی کے سلسلے میں تمام فقہاء اصول یہی ہے کہ ذخیرہ اندوزی صرف اسی صورت میں ناجائز ہے جب ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عامۃ الناس کو ضرر پہنچے‘ باراز میں‌ کسی شے کی طلب ہو لیکن ذخیرہ اندوز اس کو فروخت کرنے کے لیے بازار میں نہ لائے یا لائے بھی تو ناجائز منافع خوری کرے۔ اگر ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عوام کو کوئی ضرر نہ پہنچے اور بازار میں اس چیز کی کثرت ہو تو اس صورت میں ذخیرہ اندوزی کرنا ناجائز نہیں ہوگا۔ تاہم کھانے پینے کی اشیاء یا دیگر اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی کو ہر حال میں روکا جائے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’جوشخص غلہ رو ک کرگراں نرخ پر مسلمانوں کو فروخت کرتا ہے اللہ اسے جذام اور افلاس میں مبتلا کر دیتاہے۔‘ اور ایک روایت میں ہے: ’جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ روکے رکھا تو گویا وہ خدا سے بیزار ہوا اور خدا اس سے بیزار ہوا‘۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 24 November, 2024 09:20:38 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5117/