Fatwa Online

طلاقِ رجعی کی عدت گزرنے کے بعد تجدیدِ نکاح کے بغیر رجوع کرنے کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:5113

السلام علیکم! میں‌ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی اور 5 مہینے تک وہ اپنے میکے میں‌ رہی۔ پھر صلح کے بعد میں‌ اسے گھر لے آیا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ایک طلاق کے بعد کوئی عدت ہوتی ہے۔ مجھے نہیں‌ یاد کہ گھر لانے کے بعد میں نے بیوی سے ہمبستری کی یا نہیں۔ میں حلف دے سکتا ہوں‌ کہ مجھے عدت میں رجوع کا کوئی علم نہیں‌ تھا۔ براہ مہربانی میری راہنمائی کر دیں‘ میں بہت پریشان ہوں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد علی

  • مقام: سندھ
  • تاریخ اشاعت: 19 اکتوبر 2022ء

موضوع:رجوع و تجدیدِ نکاح

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ ۚ

اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو۔

الطَّلاَق، 65: 1

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جب عورتوں کو طلاق ہو جائے تو وہ عدت پوری کریں۔ اگر کوئی شخص طلاق کے ایک یا دو حق استعمال کرتا ہے یعنی زبانی یا تحریری طور پر صریح لفظ سے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے، تو زوجین کے پاس رجوع کا حق موجود ہوتا ہے۔ زوجین دورانِ عدت بغیر کسی تجدیدِ نکاح کے، محض صلح صفائی کرکے رجوع کرسکتے ہیں۔ اس لیے بیوی کو عدت کا دورانیہ شوہر کے گھر میں پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ دونوں کیلئے صلح کے مواقع باقی رہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ؕ

طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔

الْبَقَرَة، 2: 229

طلاق کی عدت کے دورانِ اگر زوجین صلح صفائی یعنی رجوع نہیں کرتے تو عدت کے مکمل ہونے پر طلاق بائن ہو جاتی ہے اور نکاح ختم ہو جاتا ہے، جس کے بعد عورت نیا نکاح کرنے میں آزاد ہوتی ہے۔ اگر چاہے تو سابقہ شوہر کے ساتھ بھی دوبارہ نکاح کرکے نئے سرے سے ازدواجی زندگی شروع کرسکتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ؕ

اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔

الْبَقَرَة، 2: 232

مذکورہ بالا آیات سے واضح ہوا کہ طلاقِ رجعی کی عدت کے دوران رجوع نہ کرنے کی صورت میں عدت مکمل ہونے پر طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے، یعنی نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں رجوع کیلئے تجدیدِ نکاح ضروری ہوتا ہے، بغیرِ تجدیدِ نکاح کیے زوجین ایک دوسرے کیلئے حلال نہیں ہوتے۔

سائل نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی، یہ طلاقِ رجعی تھی یعنی سائل اور اس کی زوجہ دورانِ عدت محض صلح کر کے رجوع کرسکتے تھے اور انہیں تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم سائل کے بقول اس نے دورانِ عدت رجوع نہیں کیا، جس پر طلاق بائن ہوگئی اور زوجین کا نکاح ختم ہوگیا۔ سائل اور اس کی بیوی اگر دوبارہ ازدواجی بندھن میں بندھنا چاہتے ہیں تو نئے حق مہر کے ساتھ، گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرکے ازدواجی تعلق بحال کرسکتے ہیں۔ تجدیدِ نکاح کے بغیر اُن کا رجوع درست نہیں ہوگیا۔ اگر انہوں نے لاعلمی کے سبب اس کے برخلاف کیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں، اور دین کی ان بنیادی تعلیمات سے خود بھی آشنا ہوں اور دوسروں کو بھی ان مسائل کے بارے میں آگاہی دیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 24 November, 2024 08:17:56 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5113/