جواب:
یہ عدالت و مباحث کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی معاملے میں دعویٰ کرے تو بارِ ثبوت بھی اسی پر ہوتا ہے‘ اس لیے جو قرآن مجید میں تحریف کا دعویٰ کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ اس کا ثبوت بھی دے کہ قرآنِ مجید کے فلاں لفظ، آیت یا سورہ میں تحریف ہوئی ہے، پھر ہی اس کے رد میں دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ قرآنِ مجید میں نہ تحریف ہوئی ہے اور نہ ہی تاقیامت ہوگی۔ اس کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ قرآنِ مجید واحد کتاب ہے جس کو پوری دنیا میں کروڑوں افراد نے حفظ کر رکھا ہے اور 1400 سال میں قرآنِ مجید کے ایک لفظ زیر زبر کی بھی تبدیلی نہیں کی گئی۔
سال 2015 میں برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی ایک لائبریری سے قرآنِ مجید کا قدیم ترین نسخہ منظرعام پر آیا‘ ماہرین کے مطابق یہ نسخہ اب تک دستیاب قرآن پاک کے پرانے نسخوں میں سب سے قدیم ہے اور اب تک کی تحقیقات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ مذکورہ قرآنی نسخہ نہ صرف سب سے پرانا ہے بلکہ اسے ممکنہ طور پر خود دور رسالتمآب صلی علیہ وآلہ وسلم یا پہلے خلیفہ راشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں مرتب کیا گیا تھا۔ برمنگھم یونیورسٹی کی جانب سے کیے جانے والے ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے قرآن پاک کے نسخے کے لیے استعمال کی گئی بھیڑ یا بکری کی کھال کی عمر کا اندازہ لگایا گیا جس سے معلوم ہوا ہے کہ یہ کھال 1370 برس یا اس سے بھی پہلے کی ہے۔ تجزیے کے مطابق یہ سنہ 568ء اور سنہ 645ء کے درمیان کا نسخہ ہے۔ اس کی عبارت اور موجودہ قرآنی مطبوعات کی عبارت میں رتی برابر فرق نہیں۔ اس سے بڑھ کر قرآنِ مجید میں عدمِ تحریف کا ثبوت کیا ہوسکتا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔