کیا مؤرث کے بھتیجے وراثت میں حصہ پاتے ہیں؟
سوال نمبر:5034
السلام علیکم! نظام الدین نام کے شخص کے دو بڑے اور ایک چھوٹا بھائی تھا۔ جبکہ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی اور نہ ہی ماں باپ زندہ ہیں۔ نظام الدین اور اس کی بیوی کا 4 مہینے کے اندر ہی انتقال ہو گیا۔ ایک بھائی حیات ہے باقی 2 بڑے بھائی انتقال کر گئے ہیں۔ ان دونوں بڑے بھائیوں کے ایک ایک اولادیں (بیٹے) حیات ہیں۔ اب وراثت میں کیسے بٹوارہ ہوگا؟ برائے مہربانی اسکا جواب جلدی دیں اس معاملے میں جھگڑے بہت بڑھ گئے ہیں۔
سوال پوچھنے والے کا نام: فریدالدین
- مقام: ہندوستان
- تاریخ اشاعت: 15 ستمبر 2018ء
موضوع:تقسیمِ وراثت
جواب:
زیرِ بحث مسئلہ کے بارے میں واضح شرعی رائے دینے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جب
نظام الدین فوت ہوا تو اس وقت کون کون سے ورثاء زندہ تھے؟ دونوں میاں بیوی میں سے پہلے
کون فوت ہوا؟ کیا نظام الدین کے والدین اس کی وفات کے وقت موجود تھے؟ ان معلومات کے
بغیر حتمی رائے دینا ممکن نہیں۔
آپ کی فراہم کردہ معلومات سے دو صورتیں بن سکتی ہیں‘ ہم ان کے مطابق مسئلہ وراثت
بتائے دیتے ہیں:
- اگر نظام الدین کے والدین اور بیوی اس کے وصال سے پہلے فوت ہو چکے تھے اور
اس کے ہاں کوئی اولاد بھی نہیں تھی تو اس کی جائیداد (نظام الدین کی وفات کے وقت
زندہ و موجود) بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر بہن کو ایک اور بھائی کو
دو حصے ملیں گے۔ اگر بہن نہیں ہے تو موجود بھائی جائیداد میں برابر حصہ دار ہیں۔
جو بھائی نظام الدین کی وفات کے وقت زندہ تھے اُن کا حصہ اُن کی اولاد کو مل جائے
گا۔ جو نظام الدین کی وفات سے پہلے فوت ہو چکے تھے‘ ان کو اور ان کی اولاد کو نظام
الدین کی جائیداد سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
- اگر نظام الدین کی وفات کے وقت بیوی زندہ تھی تو اس کی کل قابلِ تقسیم جائیداد
میں سے چوتھا حصہ بیوی کو ملے گا اور باقی اُس وقت زندہ و موجود بھائیوں میں برابر
تقسیم ہوگا۔ اس صورت میں بیوی کی وفات کے بعد اُس کا حصہ اُس کے ورثاء میں تقسیم
ہوگا اور بھائیوں کا حصہ ان کی اولاد کو مل جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی:محمد شبیر قادری
Print Date : 23 November, 2024 05:45:47 PM
Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5034/