Fatwa Online

اگر لڑکی سے جبراً نکاح نامے پر دستخط لیے گئے تو نکاح کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:4953

ایک لڑکی سے جبراً نکاح نامے پر دستخط لیے گئے تو کیا یہ نکاح منعقد ہوگیا؟ اور اب اس نکاح کو ختم کرنے کا کیا طریقہ کار ہو گا؟ جبکہ لڑکا طلاق دینا نہیں‌ چاہتا اور لڑکی اور اس کے ولی اس نکاح سے راضی نہیں‌ ہیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: فہد علی

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 30 جولائی 2018ء

موضوع:نکاح

جواب:

اگر لڑکی نے یہ نکاح قبول ہی نہیں کیا اور جبراً اس سے دستخط لیے گئے تو یہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ اس صورت میں کسی طلاق و خلع کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ کسی فریق کے ساتھ جبر و اکراہ کی صورت میں نکاح قائم ہی نہیں ہوتا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ نکاح میں اگرچہ لڑکی کی پسند شامل نہیں تھی تاہم اس نے ایجاب و قبول کے وقت انکار نہیں کیا نہ ہی اس پر ایسا جبر کیا گیا کہ جس سے کسی نقصان کا اندیشہ ہو‘ تو نکاح قائم ہوچکا ہے۔ اس صورت میں لڑکی یا تو شوہر کو طلاق کے لیے راضی کرے یا عدالت میں تنسیخِ نکاح کی درخواست دائر کرے اور ان وجوہات کو ثابت کرے جن کی بنا پر وہ علیحدگی چاہتی ہے۔ پھر عدالت ان کے درمیان فیصلہ کر دے گی۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

اگر لڑکی نکاح کو قبول نہ کرے تو کیا نکاح منعقد ہو جائے گا؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 27 November, 2024 09:18:05 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4953/