کیا مسنون اعتکاف کے لیے مسجد شرط ہے؟
سوال نمبر:4952
<p>السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں وفاق المدارس
العربیہ سے فارغ التحصیل اورسلسلۂ قادری سے مجاز ہوں۔ میری خانقاہ ایسی جگہ واقع ہے
، جہاں اردگرد غیرمسلموں (مسیحیوں اورمرزائیوں) کی کثرت ہے۔ اس کے باوجود محض اللہ
کی توفیق سے فقیر کی خانقاہ میں کئی سال سےمخلوق ِ خدا کو اکابرین ِ احناف کی ترتیب
کے مطابق سچا مسلمان بنانے کیلئے صبح سے شام تک سلسلۂ قادریہ کےدرج ذیل معمولات ہورہے
ہیں۔</p>
<ol>
<li>پانچ وقت اذان </li>
<li>باجماعت نماز </li>
<li>صبح و شام ذکر، دعا، معمولات </li>
<li>نماز عصر کے بعد ختمِ خواجگان </li>
<li>نمازِ جمعہ</li>
<li>نمازِ عیدین </li>
<li>ہر جمعے کو درود شریف کی محفل، جس میں ہزاروں مرتبہ درود شریف پڑھنے کا اہتمام
ہوتا ہے۔</li>
<li>صبح و شام ذکر نفی اثبات و مراقبہ</li>
<li>نمازِ فجر کے بعد "منتخب احادیث" (مصنفہ: مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ
علیہ) کا درس</li>
<li>نمازِ مغرب کے بعد مسنون اعمال کا یومیہ مذاکرہ</li>
</ol>
<p>علمائے احناف کی سرپرستی میں یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری و ساری ہے۔ الحمدللہ فقیر
کی خانقاہ میں کثیرالتعداد لوگ رجوع کرتے ہیں۔ جن میں دیگر مسالک کے لوگوں کے ساتھ
خاص طور پہ احناف کی کثرت ہے۔ جمعہ میں لوگوں کاجمِ غفیر دیکھنے میں آتا ہے اور عیدین
میں تو ماشاءاللہ بہت بڑا ہجوم ہوتا ہے۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہزاروں لوگوں
کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ کئی گلوکاروں اور طوائفوں نے فقیر کے
ہاتھ پر توبہ کی۔ برسوں سے سُودی نظام کے ذریعے کاروبار چلانے والوں نے فقیر کی خانقاہ
میں وقت گزارنے کے بعد سود سے دامن چھڑایا۔ خوشی و غمی کے موقع پر ہونے والے فرنگیانہ
اور ہندووانہ رسم و رواج میں جکڑے لوگوں نے اسلامی تعلیمات کو اپنایا۔ داڑھی والوں
(علماء، حفاظ اور قراء حضرات) کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والوں نے اپنے جذبے بدلے۔
دین سے متنفر لوگوں نے دینی ماحول کو اپنے اپنے گھروں میں لاگو کرنا شروع کیا۔ ذکر
و تسبیح کے منکرین کے ہاتھوں میں تسبیح اور زبان پہ اللہ کا نام آگیا۔ جدید تعلیم یافتہ
طبقے نے اکابرین ِ احناف کے قدیم اخلاقیات کو سراہا اور خوش دلی سےاپنایا۔ سنتِ نبوی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیزار عوام نےمسنون اعمال کے ساتھ خود کو مزین کرنا شروع
کر دیا۔ الغرض فقیر کی خانقاہ سے جڑے بےشمارگھرانوں میں ایک خوش آئند روحانی انقلاب
دیکھا جارہا ہے۔ فالحمدللہ الذی بنعمتہٖ تتم الصالحات</p>
<p>ہر سال رمضان المبارک میں ایک بہت بڑا مجمع فقیر کے ہاں رمضان گزارنے آتا ہے اور
آخری عشرے میں رجوعِ خلائق مزید بڑھ جاتا ہے۔ مخلوقِ خدا آخری عشرے کے مسنون اعتکاف
کو پسند کرتی ہے۔ میں چونکہ خود عالم ہوں، لہٰذا میں نے اس ضمن میں بیشتر علمائے احناف
سے مشورہ کیا آیا کہ ایسی جگہ‘ جہاں یہ ترتیب سالہا سال سے موجود ہو وہاں مسنون اعتکاف
ہوسکتا ہے؟</p>
<p>اس کے جواب میں کچھ علمائے احناف کا فتویٰ رخصت کا ہے اور کچھ کا عزیمت کا ہے۔ یعنی
کچھ علماء کا کہنا ہے کہ خانقاہ کا اعتکاف نفل ہوتا ہے کیونکہ سنت اعتکاف کیلئے مسجد
کا ہونا شرط ہے، جبکہ اکثر علمائے احناف ان دلائل کی بنیاد پر اس اعتکاف کو سنت قرار
دیتے ہیں کہ چونکہ یہاں پانچ وقت اذان، باجماعت نماز، عیدین اور جمعہ باقاعدگی سے ہو
رہا ہے اس لیے یہاں اعتکاف مسنون ہوگا اورا س کی شرعی حیثیت مضبوط ہوگی۔ دوسرے لفظوں
میں یہ کہ علمائے احناف کا اس کے مسنون ہونے کا بھی فتویٰ ہے اور غیرمسنون یعنی نفلی
ہونے پر بھی ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں مجھے آپ سے فیصلہ کن رہنمائی چاہئے۔ جیساکہ پہلے
بیان کیا جاچکا ہے کہ فقیر کی خانقاہ ایسی جگہ واقع ہے جہاں اردگرد غیرمسلم لوگوں اور
ماڈرن طبقےکی اکثریت ہے۔ لہٰذا میرے ہاں ماڈرن طبقہ بھی بہت زیادہ تعداد میں آتا ہے
جس سے ان کے عقائد تبدیل ہوتے ہیں اور احوال کی اصلاح ہوتی ہے۔ فقیر چونکہ اس علاقے
میں احناف میں سے فردِ واحد ہے اس لیے سارا سال دروس و خطبات اور ذکر و مراقبہ کے ذریعے
ماڈرن طبقے پر محنت کی جاتی ہے اور بڑی مشکل سے انہیں اکابرینِ احناف کی ترتیب زندگی
میں ڈھالنے کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ سارے سال کی محنت کے بعد مسنون
اعتکاف کیلئے کہیں اور جاتے ہیں تو وہاں ان کا آخری عشرہ تو گزر جاتا ہے مگر دن بدن
بڑھتے ہوئے دجالی فتنوں کے باعث وہاں سے ان کے عقائد خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور
وہ اکابرینِ احناف کی ترتیب سے ہٹ کر من چاہی غیر مقلدانہ روش اختیار کرلیتے ہیں۔ جس
سے ان پر ساراسال کی جانے والی ساری محنت اکارت جاتی ہے اور وہ وہاں سے عجیب
و غریب قسم کی خرافات سن کر الٹا اکابرینِ احناف پر الزام دینا شروع ہوجاتے ہیں کہ
( نعوذ باللہ) وہ تمام حضرات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہوں سے ہٹے ہوئے تھے
اور سلاسل تصوف و فقہ حنفی کاشریعتِ محمدیہ (علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام) سے کوئی
تعلق نہیں۔</p>
<p>ان تمام مسائل و خطرات کو دیکھ کر علمائے کرام کا کہنا ہےکہ:</p>
<ol>
<li>جب امت کو دجالی فتنے ہرطرف سے گھیر لیں اور دین سے جوڑنے والے خود دین سے
بیزار کرنے والے بن جائیں۔ اس وقت ایسی جگہوں پر مسنون اعتکاف کیلئے لوگوں کو جمع
کرنے میں کوئی شرعی عذر نہیں بلکہ شریعت کاعین تقاضا ہے۔</li>
<li>ایک صاحبِ علم شخصیت نے فرمایا: خانقاہ چونکہ ایسی جگہ واقع ہے جہاں اردگرد
غیرمسلموں کی کثرت ہے اوراگر وہاں رہنے والے گنتی کے چند مسلمانوں کا عالم بھی
یہ ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دینے کی بجائے اپنی غیرمقلدانہ راہوں کی طرف
بلا رہے ہیں توایسے ماحول میں ایسی خانقاہ کا اعتکاف مسنون سمجھا جائےگا جہاں جمعہ،
جماعت اور عیدین کا معمول ہو۔ </li>
<li>ایک عالم ِ دین نے یہ کہا کہ: اگربعض علمائے احناف کے فتویٰ کے مطابق لاہور
میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب اور ان کے ساتھی علماء کی زیر سرپرستی ایسی جگہ مسنون
اعتکاف کی بستی قائم کی جا سکتی ہے جہاں سارا سال اذان اور جماعت تو کُجا جمعے
کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا تو یہ خانقاہ تو بالاولیٰ حق رکھتی ہے کہ یہاں کے
اعتکاف کو نفل کی بجائے سنت قرار دیا جائے کیونکہ یہاں لوازماتِ شریعت کی سارا
سال پورے اہتمام کے ساتھ ادائیگی ہوتی ہے۔</li>
<li>ایک عالم دین فرمانے لگے کہ فقہ حنفی کے مطابق مسنون اعتکاف کیلئے یہ شرط ہے
کہ معتکف مرد کو ایسی مسجد کا انتخاب کرنا چاہئے جہاں نماز باجماعت کا انتظام ہو۔
پھر ایسی مسجدکا انتخاب کرناچاہئے جہاں مسلمانوں کے اجتماع کی کثرت ہو۔ کیونکہ
جس طرح دو آدمیوں کی نماز ایک آدمی سے اور تین آدمیوں کی نماز دوآدمیوں سے بہتر
ہے اسی طرح اعتکاف میں بھی معتکفین کی تعداد کے بڑھنے سے فضائل بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا
ایسی خانقاہ جہاں رمضان المبارک کے علاوہ باقی دنوں میں بھی مسجدوالے اعمال (اذانیں،
باجماعت نمازیں، عیدین اور جمعہ) جاری ہوں وہاں سنت اعتکاف ہی کا حکم لاگو ہوگا۔</li>
</ol>
<p>محترم ! فقیر کو آپ کی تحقیق پر مکمل اعتماد ہے اس لیےآپ کی بات میرے لیے حتمی فیصلہ
ہوگا۔ براہِ کرم ان تمام حقائق کو مدِّنظر رکھتے ہوئے فتویٰ عنایت فرمائیں کہ کیا فقیر
کی خانقاہ میں مسنون اعتکاف ہوسکتا ہے؟ بینوا وتوجروا۔ فقیر کا اصل مقصد یہ ہے کہ مخلوقِ
خدا کو اکابر ینِ احناف کی ترتیب پر چلتے ہوئے قرآن و سنت سے وابستہ کیا جائے۔ وباللہ
التوفیق </p>
سوال پوچھنے والے کا نام: مولوی سید عادل شیراز بخاری
- مقام: کراچی
- تاریخ اشاعت: 31 جولائی 2018ء
موضوع:اعتکاف
جواب:
لفظ اعتکاف کا مادہ عکف ہے جس کے معنیٰ خود کو روک لینے، بند کر لینا یا کسی کی
طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اس سے نہ ہٹے وغیرہ۔ اہلِ لغت نے اعتکاف کا شرعی
مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
قِيْلَ لِمَنْ لَازَمَ الْمَسْجِدَ وَأَقَامَ عَلَى العِبَادَةِ
فِيهِ: عَاكِفَ وَ مُعْتَكِفٌ.
جو مسجد میں ڈیرا لگا لے اور عبادت میں مصروف ہو جائے‘ اسے
عاکف یا معتکف کہا گیا ہے۔
ابن اثیر، النهایه فی غریب الاثر، 3: 284، بیروت، المکتبة العلمیة
ابنِ منظور، لسان العرب، 9: 255، بیروت، دار صادر
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً
وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ
وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ
السُّجُودِO
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے
رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ
السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل
(علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں
اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو۔
البقرة، 2: 125
اور سورہ بقرہ میں ہی دوسرے مقام پر فرمایا:
وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ.
اور عورتوں سے اس دوران شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں
اعتکاف بیٹھے ہو۔
البقره، 2: 187
درج بالا آیت میں مردوں کے لیے مسجد کو اعتکاف گاہ قرار دیتے ہوئے اعتکاف کے آداب
ملحوظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شریعتِ مطاہرہ نے مسنون اعتکاف کے لیے جامع مسجد کو
بنیادی شرط قرار دیا ہے‘ الاّ یہ کہ کوئی شرعی عذر درپیش آ جائے۔ امام بیہقی نے مسنون
اعتکاف کے آداب ان الفاظ میں بیان کیے ہیں:
أَنْ لاَ يَخْرُجَ إِلاَّ لِلْحَاجَةِ الَّتِي لاَ بُدَّ مِنْهَا.
وَلاَ يَعُودُ مَرِيضًا، وَلاَ يَمَسُّ امْرَأَةً، وَلاَ يُبَاشِرُهَا، وَلاَ اعْتِكافَ
إِلاَّ فِي مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ. وَالسُّنَّةُ فِيمَنِ اعْتَكَفَ أَنْ يَصُومَ.
معتکف کسی ایسی شدید ضرورت کہ جس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو‘
باہر نہ نکلے۔ نہ تیمارداری کرے، نہ بیوی سے ہمبستری کرے اور نہ مباشرت کرے۔ جامع
مسجد کے سوا اعتکاف نہیں ہے اور سنت اعتکاف کے لیے روزہ رکھنا شرط ہے۔
بیهقی، السنن الکبریٰ، 4: 315، رقم: 8354، مکة المکرمة، المکتبة
دارلباز
اور حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ عیہ وسلم کی زوجہ
مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا:
وَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ لَيُدْخِلُ عَلَيَّ رَأْسَهُ
وَهُوَ فِي المَسْجِدِ، فَأُرَجِّلُهُ، وَكَانَ لاَ يَدْخُلُ البَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةٍ
إِذَا كَانَ مُعْتَكِفًا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں ہوتے ہوئے سر
مبارک میری طرف کر دیتے تو میں اس میں کنگھی کر دیتی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بغیر ضرورت کے گھر میں تشریف نہ لاتے جب کہ اعتکاف میں ہوتے۔
بخاری، الصحیح، 2: 714، رقم: 1925، بیروت، دار ابن کثیر الیمامة
ان احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردوں کا اعتکاف مسجد میں ہی مسنون ہے کیونکہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں اعتکاف فرماتے اور مسجد میں ہی اعتکاف کرنے
کا حکم دیا ہے۔ لیکن اگر معتکفین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سب مسجد میں نہیں سما سکتے
تو مسجد سے ملحق عمارات اور درس گاہوں کو اعتکاف گاہ قرار دے کر وہاں معتکفین کی رہائش
رکھی جاسکتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے جمعہ و عیدین کے اجتماعات میں مسجد سے ملحق
گزرگاہوں، میدانوں اور عمارتوں میں بھی صفیں لگا کر مسجد میں ہونے والی جماعت کے ساتھ
شامل کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا ضروری ہے، لیکن معتکفین کی
تعداد زیادہ ہونے پر مسجد سے ملحق جگہوں کو اعتکاف گاہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
آپ نے بتایا کہ آپ کی خانقاہ میں باجماعت نمازِ پنجگانہ، نمازِ جمعہ، عیدین کے اجتماعات،
درس و تدریس، تذکیہ و تطہیر جیسے امور مسجد انجام پاتے ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ خانقاہ
کا کچھ حصہ مسجد کے لیے وقف کر کے وہاں مسجد تعمیر کر دیں۔ اس سے مسجد کی برکت بھی
حاصل ہوگی اور وہ امور جن کی ادائیگی کے لیے مسجد کا ہونا شرط ہے‘ ان کی انجام دہی
میں بھی کوئی دقت نہیں ہوگی۔ خانقاہوں، مدارس اور مزارات کے ساتھ مساجد کی تعمیر عام
بات ہے۔ اس طرح آپ کی خانقاہ کی مسجد میں مسنون اعتکاف کرنے والے، اگر زیادہ ہوں
تو ان کو ملحقہ عمارات میں ٹھہرایا جا سکتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے
میں بھی کوئی مشکل نہیں رہے گی۔
نوٹ: اپنے سوالنامے میں آپ نے ذکر کیا ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ایسی جگہ مسنون اعتکاف کرواتے ہیں جہاں نمازِ پنجگانہ تو کُجا نمازِ جمعہ کا بھی اہتمام
نہیں کیا جاتا۔ عرض ہے کہ کسی نے آپ کو دانستہ یا نادانستہ غلط معلومات دی ہیں۔ تحریک
منہاج القرآن کے زیراہتمام ہونے والا اعتکاف ’جامع مسجد المنہاج‘ ٹاؤن شپ میں ہوتا
ہے۔ مسجد سے ملحق منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کی تعلیم گاہیں اور ان کے ہاسٹلز ہیں جن کو
اعتکاف کے دنوں میں خالی کروا کر معتکفین کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا
ہے۔ مسجد میں سارا سال اذان، نمازِ پنجگانہ، نمازِ جمعہ و عیدین بھی ادا کی جاتی ہیں
جن میں منہاج تحفیظ القرآن، منہاج ماڈل سکول، آغوش کمپلیکس کے اساتذہ و طلبہ اور اہلِ
محلہ شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسی بے بنیاد باتوں پر کان نہ دھریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی:عبدالقیوم ہزاروی
Print Date : 23 November, 2024 05:24:13 PM
Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4952/