Fatwa Online

کیا والدہ کی وراثت صرف بیٹیوں میں‌ تقسیم ہوتی ہے؟

سوال نمبر:4947

السلام علیکم! میرے والد کا وصال 4 سال پہلے ہوا۔ ورثاء میں‌ اب ہم دو بھائی، دو بہنیں اور ہماری والدہ ہیں۔ والد کے وصال کے بعد بھائی نے اپنا گھر تقریباً پینسٹھ لاکھ میں‌ فروخت کیا اور ان کے پاس دیگر پچپن لاکھ کے قریب سرمایہ تھا یعنی کل ملا کر تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ کا ترکہ تھا۔ بھائی کہا کہ میں‌ سب کو ان کا حصہ دینا چاہتا ہوں‌ لیکن ہم بہنوں‌ نے لینے سے انکار کر دیا۔ ہم نے کہا کہ آپ نیا گھر لیں اور اس میں‌ والدہ کے ساتھ رہیں۔ انہوں‌ نے پچانوے لاکھ میں گھر لیا۔ اب بھائی نے مجھ سے دوبارہ رابطہ کیا اور مجھے میرے حصے کے اٹھارہ لاکھ لینے کا کہا۔ جبکہ والد کے وصال کے بعد جو گھر فروخت کیا گیا تھا اس کی موجودہ قیمت ایک کروڑ تیس لاکھ کے قریب ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک بہن کا حصہ اٹھارہ لاکھ ہے تو ایک بھائی کا 36 لاکھ ہوگا اور دو بھائیوں‌ کا بہتر لاکھ۔ ایسے میں ان کے لیے 95 لاکھ کا گھر خریدنا ممکن نہیں ہے بشمول والدہ کے حصے کے۔ اگر ابھی مجھے اٹھارہ لاکھ کا حصہ ملتا ہے تو کیا والدہ کے وصال کے بعد بھی بیٹیوں‌ کو کوئی حصۃ ملے گا؟ شریعہ اس بارے میں کیا کہتی ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: مشال احمد

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 23 جولائی 2018ء

موضوع:تقسیمِ وراثت

جواب:

آپ کے مرحوم والد کے ترکہ ایک کروڑ بیس لاکھ میں سے بیوہ کو پندرہ لاکھ، ساڑھے سترہ لاکھ ہر بیٹی کو پینتیس لاکھ ہر بیٹے کا حصہ بنتا ہے۔ جب بھائی نے تقسیم کر کے آپ کو آپ کا حصہ دینا چاہا تو آپ کو انکار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ تب آپ نے انکار کیا ہے تو اب اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ چار سال پہلے خریدے ہوئے مکان کی قمیت میں لازماً اضافہ تو ہونا ہی ہے۔ اگر آپ کے بھائی آپ کو اٹھارہ لاکھ دے رہے تو وصول کر لیں۔

والدہ کے وصال کے وقت جتنے ورثاء موجود ہوں گے ان میں والدہ کا ترکہ تقسیم ہوگا۔ جس طرح والد کی جائیداد سے بیٹیوں کو ایک حصہ اور بیٹوں کو دو حصے ملے ہیں اسی طرح والدہ کے وصال پر ان کا ترکہ تقسیم ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 December, 2024 10:00:56 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4947/