مختلف رشتوں میں ناچاکی کی صورت میں انسان کیا کرے؟
سوال نمبر:4833
عالی جناب مفتی صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
ہمارے ایک چھوٹے سے گھر میں کل چار فیملی رہتی ہیں جس میں دونوں بھائی اپنی بیوی اور ایک بچے سمیت، ہمارے والد اور والدہ، میرا چھوٹا بھائی اور میں اپنی بیوی سمیت رہتا ہوں۔ کل ملا کر گیارہ لوگ اس گھر میں رہتے ہیں۔ میری بیوی کی اکثر طبیعت ناساز رہتی ہے جس کے سبب گھر میں وہ باقی عورتوں کی طرح کام نہیں کر سکتی جس کے سبب میری دونوں بھابھی اور میری والدہ آئے دن نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ میری بیوی سے گھر میں کوئی بات نہیں کرتا ہے اور اس کو سب گالی گلوچ اور طعنہ زنی، اور عیب جوئی کرتے رہتے ہیں. جب میری بیوی کوئی بات کرے یا اپنی صفائی دے تو سب اسے برا کہتے رہتے ہیں. میری والدہ بھی میری بھابھی لوگوں کا ساتھ دیتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں پچھلے آٹھ دس سال سے دونوں بھابھی گھر کا کام کررہے ہیں تو یہ لڑکی کیوں نہیں کر سکتی ہے؟ میں گھر کے ماحول سے تنگ آکر اپنی والدہ سے اور دونوں بھابھی لوگوں سے اپنی بیوی کے حق کے لیے روزانہ لڑتا رہتا ہوں، جس کے سبب میری والدہ سمیت دونوں بھابھی میرے سے اور میری بیوی سے ناراض ہے اور ہم دونوں سے باتیں بند کر دیئے ہیں. جس وجہ سے میں نے اپنی بیوی کو کچھ دنوں کے لئے اس کے والد کے گھر بھیج دیا ہے۔ میری بیوی ابھی الحمدللہ حاملہ ہے. جس وجہ سے میری بیوی گھر کے ماحول سے تنگ آکر مجھ سے دوسرے گھر کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن میری والدہ کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی حیاتی میں کوئی بھی بیٹے کو اپنے سے الگ ہونے نہیں دے سکتی ہے. اگر میں نیا گھر لیا تو میری والدہ سمیت میرے بھائی اور بھابھی میرا مکمل بائیکاٹ کرینگے اور میری والدہ کا کہنا ہے کہ میں ان کے وصال کے بعد بھی ان کا دیدار نہیں کرسکتا اور نہ جنازے کو کاندھا دے سکتا ہوں. میری والدہ کی طبیعت بھی اکثر عمر کی وجہ سے خراب رہتی ہے. جبکہ میں میری والدہ اور والد کو اپنے ساتھ رکھنے بھی تیار ہوں لیکن وہ الگ گھر لینے سے مجھے منع کرتی رہتی ہے. کیا اس عمل سے میں میری والدہ کا حکم نہیں مان کر اپنے لیے جہنم کا سبب تو نہیں بن رہا ہوں؟ میری بیوی کا نئے گھر کا مطالبہ کرنا اسلام میں کیسا عمل ہے؟ کیا شریعت میں میری بیوی کو میرے والد، والدہ، اور میرے گھر کا کام کرنا فرض ہے؟ گھر میں روزانہ فتنے کا ماحول دیکھ میری بیوی کے حق کے لئے میرا اپنی والدہ سے اور دونوں بھابھی لوگوں سے جھگڑا کرنا اسلام میں کیسا عمل ہے؟ برائے مہربانی اس کا تفصیلی جواب عنایت فرمائیں. جزاک اللہ خیرا!
والسلام.
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد افضل خان
- مقام: گجرات، ہندوستان
- تاریخ اشاعت: 03 دسمبر 2018ء
موضوع:معاشرت
جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد ہے:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ
إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ
تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا.
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت
مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی
ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی
نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔
بَنِيْ إِسْرَآءِيْل، 17: 23
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم فرمایا ہے۔
ان کو گالم گلوچ کرنا، جھگڑنا، انہیں جھڑکنا اور ان کے سامنے چلانا تو درکنار اللہ
تعالیٰ نے ان کے سامنے کراہت کا اظہار کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ بیویوں کے ساتھ حسنِ
سلوک کا حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے:
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.
اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو.
النساء، 4: 19
اور حدیثِ مبارکہ میں ہے:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا:
خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي.
تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے اچھا ہو،
اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب سے اچھا ہوں۔
ترمذي، السنن، كتاب كتاب المناقب عن رسول الله، باب فضل أزواج
النبي، 5: 709، رقم: 3895، بيروت: دار إحياء التراث العربي
معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت اور بیوی سے حسنِ سلوک میں توازن رکھنا اہم شرعی ضرورت
ہے۔ کسی ایک رشتے کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے کسی دوسرے رشتے کی حق تلفی نہیں کی
جاسکتی۔ اسی طرح کسی رشتہ دار کی ایسی بات ماننا جائز نہیں جس میں خدا تعالیٰ کی نافرمانی
ہو۔ کیونکہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِیَةِ اﷲِ عَزَّ وَجَلَّ.
اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہ کی جائے۔
- أحمد بن حنبل، المسند، 1: 131، رقم: 1095، مصر: مؤسسة قرطبة
- عبد الرزاق، المصنف، 2: 383، رقم: 3788، بیروت: المکتب الإسلامي
اس لیے آئندہ اپنے والدین اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ لڑائی، جھگڑا مت کریں۔
اپنے والدین کی خدمت اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ نے
والدین کی جو گستاخی کی ہے اس کی اُن سے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ اگر والدین
کوئی خلافِ شرع حکم دیں تو اس پر عمل نہ کریں لیکن ان کے ساتھ ہمیشہ عزت و احترام سے
پیش آئیں۔ رشتوں کے ساتھ تعلق میں اعتدال و توازن برقرار رکھیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی:محمد شبیر قادری
Print Date : 21 November, 2024 04:03:11 PM
Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4833/