Fatwa Online

’اللہ اعلم و رسولہ‘ کہنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

سوال نمبر:4801

کچھ لوگ بات ختم ہو نے پر یا مسئلہ میں‌ لاعلمی پر کہہ دیتے ہیں کہ ’اللہ اعلم والرسول‘ مطلب اللہ اور اس کا رسول محمد بہتر جانتے ہیں۔ مثلاًفلاں شخص گنہگار ہے یا نہیں؟ اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں۔ کیا یہ کہنا درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں ۔ جزاک اللہ

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد اویس

  • مقام: بہاولپور
  • تاریخ اشاعت: 16 اپریل 2018ء

موضوع:متفرق مسائل

جواب:

جس معاملے سے متعلق ہمیں علم میں‌ نہ ہو یا ہمیں اس کے بارے میں تشکیک ہو اس کی حقیقت بلاشک و شبہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی جانتے ہیں۔ اس لیے اہل علم اپنی بات کہنے کے بعد ’اللہ اعلم و رسولہ‘ کہتے ہیں‌ جو اللہ تعالیٰ‌ کے حضور عاجزی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے مروج ہے۔ ایک دفعہ دورانِ سفر رات کے وقت بارش ہونے لگی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  نماز کے بعد صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ ایسا کیوں ہوا؟ صحابہ کرام عرض گزار ہوئے:

اﷲُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.

اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

قَالَ اﷲُ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَکَافِرٌ بِي فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِرَحْمَةِ اﷲِ وَبِرِزْقِ اﷲِ وَبِفَضْلِ اﷲِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ بِي کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَجْمِ کَذَا فَهُوَ مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ کَافِرٌ بِي.

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ مجھ پر ایمان بھی رکھتا ہے اور میرے ساتھ کفر بھی کرتا ہے۔ اس لیے جو یہ کہتا ہے کہ ہم پر اللہ کی رحمت سے، اللہ کے برسانے سے اور اللہ کے فضل سے بارش برسی، وہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور ستاروں کی تاثیر کا منکر ہے۔ لیکن جس نے یہ کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے اور ستاروں پر ایمان رکھا تو وہ میرا منکر ہے۔

  1. بخاري، الصحیح، 4: 1524، رقم: 3916
  2. مسلم، الصحیح، 1: 83، رقم: 71

اس لیے اللہ اعلم و رسولہ یا اللہ و رسولہ اعلم کہنا جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 10:48:10 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4801/