جواب:
جن روایات میں رزق کو عقیق، یاقوت، نیلم یا دیگر پتھروں کے ساتھ جوڑا گیا ہے ایسی تمام روایات من گھڑت یا انتہائی ضعیف درجے کی ہیں۔
علامہ غلام رسول سعیدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی انہیں بےاصل قرار دیا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کا کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان روایات کو حوالہ کے ساتھ پیش نہیں کیا۔ جو روایت امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کی ہے اس کے بارے میں بھی محدثین اور آئمہ فنِ حدیث نے جو اعتراضات کیے ہیں درج ذیل ہیں:
عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ تَخَتَّمَ بِالْعَقِيقِ لَمْ يَزَلْ يَرَى خَيْرًا.
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی وہ مسلسل بھلائی کے راستے پر رہے گا۔
امام طبرانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کر کے خود ہی اس پر اعترض بھی وارد کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَالِكٍ إِلَّا أَبُو بَكْرِ بْنُ شُعَيْبٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: زُهَيْرُ بْنُ عَبَّادٍ.
یہ حدیث مالک سے ابوبکر بن شعیب ہی روایت کرتے ہیں، اسے روایت کرنے میں زہیر بن عباد اکیلے ہیں۔
طبراني، المعجم الأوسط، 1: 39، رقم: 103، القاهرة: دار الحرمين
امام ہیثمی اس کی تخریج کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَعَمْرُو بْنُ الشَّرِيدِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ فَاطِمَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ عَبَّادٍ الرُّؤَاسِيُّ وَثَّقَهُ أَبُو حَاتِمٍ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ.
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 5: 154، رقم: 8744، القاهرة: مكتبة القدسي
ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو نقل کر کے اس کی سند پر جرح کی ہےکہ یہ مالک کی حدیث نہیں ہے:
رَوَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ.وَأَبُو بَكْرٍ هَذَا يَرْوِي عَنْ مَالِكٍ مَا لَيْسَ مِنْ حَدِيثِهِ.
المقدسي، تذكرة الحفاظ، 1: 314، 315، رقم: 789، الرياض: دار الصميعي للنشر والتوزيع
اسی طرح ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت پر شدید اعتراضات وارد کئے ہیں:
هذا كذب انتهى ذكره بن حبان في الضعفاء وأورد له الحديث عن محمد بن جعفر البغدادي عن احمد بن يحيى بن خالد بن حيان عن زهير بن عباد عنه وقال أبو بكر هذا يروي عن مالك ما ليس من حديثه لا يحل الاحتجاج به وأخرجه الطبراني في الأوسط عن احمد بن يحيى هذا وقال لم يروه عن مالك الا أبو بكر تفرد به زهير
عسقلاني، لسان الميزان، 7: 16، رقم: 132، بيروت: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات
امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت پر جرح کی ہے:
فمالك بري من هذا.
اور دوسرے مقام پر بیان کیا:
هذا كذب.
ذهبي، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 7: 337، رقم: 10022، 7: 341، رقم: 10027، بيروت: دار الكتب العلمية
یہ بات بالکل بجا ہے کہ دنیا کی کوئی شے بلامقصد پیدا نہیں کی گئی اور ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ ان پتھروں کا مقصد زیب و زینت کا حصول ہے۔ رزق کی کمی و پیشی کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔