جواب:
مسجدیں اسلام کے مراکز اور عبادت گاہیں ہیں جو بلا تفریقِ مرد و زن تمام مسلمانوں کے لئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَکُمْ امْرَأَتُهُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَـلَا یَمْنَعْهَا.
جب تم میں سے کسی شخص کی عورت مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو اسے منع نہ کرو۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَمْنَعُوا نِسَائَکُمْ الْمَسَاجِدَ وَبُیُوتُهُنَّ خَیْرٌ لَهُنَّ.
اپنی عورتوں کو مسجدوں سے مت روکو! اور ان کے گھر ان کے لئے (نماز با جماعت کے علاوہ) بہتر ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَیْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَیْتِهَا.
عورت کی نماز اس کے گھر میں افضل ہے بہ نسبت حجرہ کے اور اس کی نماز اس کے سٹور میں بہتر ہے اس کے گھر سے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاکُنَّ الْمَسْجِدَ فَـلَا تَمَسَّ طِیبًا.
جب تم میں سے کوئی عورت مسجد میں جائے تو خوشبو نہ لگائے۔
مسلم، الصحیح، 1: 327، رقم: 443
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَیُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فَـلَا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ.
جو عورت خوشبو لگائے وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں شریک نہ ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خَیْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا وَشَرُّهَا آخِرُهَا وَخَیْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا.
مردوں کی بہترین صف پہلی ہے اور بدترین آخری اور عورتوں کی بہترین صف آخری ہے اور بدترین صف پہلی ہے۔
نوٹ: مردوں کی سب سے بہتر پہلی صف ہے کہ عورتوں سے زیادہ دور ہے، مردوں کی سب سے برُی آخری صف ہے کہ عورتوں سے قریب تر ہے۔ عورتوں کی سب سے اچھی آخری صف ہے کہ مردوں سے زیادہ دور ہے اور سب سے بری پہلی صف ہے کہ مردوں سے قریب تر ہے۔ ان ارشادات سے کیا ثابت ہوا؟ کہ عورتوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرگز ہرگز منع نہیں فرمایا۔ بلکہ ان کے مسائل و ضروریات کا لحاظ فرمایا۔ آج بھی یہی اسلام ہے۔ یہی تقویٰ ہے جو سنت کے عین مطابق ہے۔
ایک حدیث مبارکہ جو حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاۃِ أُرِیدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِیهَا فَأَسْمَعُ بُکَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي کَرَاهِیَۃَ أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمِّهِ۔.
میں نماز میں لمبی قرأت کرنا چاہتا ہوں۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کی آواز سن کر ماں کتنی پریشان ہو جاتی ہے۔
بخاری، الصحیح، 1: 250، الرقم: 675
اور حضرت شریک بن عبداﷲ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
مَا صَلَّیْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ قَطُّ أَخَفَّ صَلَاةً وَلَا أَتَمَّ مِنَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَإِنْ کَانَ لَیَسْمَعُ بُکَاءَ الصَّبِيِّ فَیُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ.
میں نے ہر گز کسی امام کے پیچھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختصر اور مکمل نماز نہیں پڑھی۔ اگر آپ کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو مختصر کر دیتے اس ڈر سے کہ اس کی والدہ آزمائش میں پڑ جائے گی۔
بخاری، الصحیح، 1: 250، الرقم: 676
بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز ہلکی پھلکی کر کے ادا فرماتے اس ڈر سے کہ بچے کی ماں کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائے مراد کہ نماز کے دوران بچے کے رونے کی آواز سے اس کا دھیان نماز سے ہٹ کر بچے کی طرف مبذول ہو جائے گا وغیرہ۔ دیکھا؟ عورتیں نماز با جماعت ادا کر رہی ہیں۔ بچوں کے رونے کی آوازیں گھروں سے آرہی ہیں۔ مگر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ماؤں کو نماز با جماعت کی ادائیگی سے منع نہیں فرمایا بلکہ خود ان کی مجبوری و پریشانی کا ازالہ ہلکی پھلکی نماز و قرأت کے ذریعہ فرمایا۔ آج تو چاروں طرف شیطانی جال تنے ہوتے ہیں۔ نیکی سے روکنے والے قدم قدم پر سرگرم عمل ہیں۔ شیطانی حربوں کا توڑ یہ ہے کہ اسلام کے دور اول کی طرح عورتوں، بچوں اور مردوں کو زیادہ سے زیادہ مساجد میں نماز پنجگانہ، نماز جمعہ و عیدین، صلوٰۃ التسبیح، ذکر و تعلیم، درود و سلام کے لئے لایا جائے۔ یہ تو اچھی بات نہ ہو گی کہ شیطانی طاقتیں پوری منصوبہ بندی و عزم کے ساتھ گمراہی و تباہی کا اہتمام کریں اور دین کے خادم ان پر دین کے دروازے بند کر دیں۔ آج دنیا بھر میں عورتوں کی تعداد بوجوہ بڑھ رہی ہے۔ ان کی ہدایت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کی ان پر دین کی گرفت ڈھیلی پڑی تو اس کے تباہ کن اثرات صرف عورتوں پر ہی نہ پڑیں گے بلکہ نئی نسل جو ان کی گودوں میں پل رہی ہے وہ بھی گمراہ و بے دین ہو جائے گی۔ جس کے بھیانک نتائج بہت حد تک ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ اس لئے عورتوں کو مساجد سے دور رکھنا ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ ایک طرف علمائے کرام ان پر نیکی کے دروازے بند کریں اور دوسری طرف ان کی آوارگی و گمراہی پر معترض ہوں فکر و عمل کا تضاد ہے۔ رہی یہ بات کہ عورتوں کے مساجد میں آنے سے فتنہ و فساد کو فروغ ہو گا۔ درست نہیں۔ نماز تو بے حیائی و برائی سے منع کرتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَط اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِط وَلَذِکْرُ اﷲِ اَکْبَرُط وَاﷲُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَo
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجیے، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
العنکبوت، 29: 45
جیسے جلسوں، اجتماعات، کانفرنسز اور سیمیناروں میں، مزاروں اور بازاروں میں کھیت کھلیانوں۔ کارخانوں میں، اینٹوں کے بھٹوں پر، دفاتر و مدارس و جامعات میں عورتوں کے کام، تعلیم اور تربیت لینے پر پابندی نہیں اور ہر مقام پر حسب ضرورت عورتیں کام کرتی ہیں تو مساجد میں نماز پنجگانہ و جمعہ و عیدین اور دیگر دینی تقریبات میں کیوں شریک نہیں ہو سکتیں؟ علمائے ربانیین اور سنجیدہ سمجھدار مسلمانوں کو مساجد میں عورتوں کے لئے نہ صرف نماز پنجگانہ نماز جمعہ و عیدین بلکہ ان کی صحیح تعلیم و تربیت کے لئے بھی معقول اور فوری بندوبست کرنا چاہیے۔ یہی گمراہی کے آگے حفاظتی بند اور ہماری نجات کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔