جواب:
آپ کے والد کی وفات کے وقت جو کچھ ان کی ملکیت میں تھا اس میں سے اُن کے کفن، دفن اور قرض (اگر تھا) کی ادائیگی کے بعد کل قابلِ تقسیم ترکہ ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ آپ نے وضاحت نہیں کہ آپ کے والد کی وفات کے وقت والدہ تھیں یا نہیں؟ اگر موجود تھیں تو کل ترکہ میں سے ان کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے اگر تمہاری کوئی اولاد نہ ہو۔ پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
النساء، 4: 12
والدہ کو دینے کے بعد بچ جانے والا ترکہ (اور اگر والدہ نہیں تھیں تو کُل ترکہ) اولاد میں درج ذیل حکمِ باری تعالیٰ کے مطابق تقسیم ہو جائے گا:
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
النساء، 4: 11
یعنی مرحوم کے کل قابلِ تقسیم ترکہ کے نو (9) برابر حصے کیے جائیں گے، ہر بیٹے کو دو اور ہر بیٹی کو ایک حصہ مل جائے گا۔
آپ کے والد اپنی زندگی میں جس کو جو دے کر گئے ہیں وہ جہیز کی مد میں تھا یا دوسری مَدّات میں‘ اسے ترکہ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ کسی بیٹی کو جہیز دے کر اسے وراثت کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ آپ تمام بہن بھائیوں کو ان کے حصے کا ترکہ دے دیں، وہ اپنے حصے سے چاہیں تو جہیز بنا لیں۔ جہیز دینا آپ کی شرعی ذمہ داری نہیں ہے۔ قیامت کے دن آپ سے جس ذمہ داری کے بارے میں سوال ہونا ہے وہ بہن بھائیوں کو ترکہ میں انصاف کے ساتھ حصہ دینے ذمہ داری ہے۔ اسی ذمہ داری کو بحسن و خوابی نبھائیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔