Fatwa Online

کیا مزارات پر صدقہ کرنے کی منت ماننا جائز ہے؟

سوال نمبر:4685

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے. بھمبر میں ایک مزار ہے "بابا شادی شہید" کا. بعض خواتین وہاں بکرے چڑھانے کی منت مان لیتی ہیں. اس بارے میں قرآن و حدیث کا کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں.

سوال پوچھنے والے کا نام: ظفیر حسین

  • مقام: سپین
  • تاریخ اشاعت: 22 فروری 2018ء

موضوع:نذر یا منت

جواب:

منت یا نذر کوئی کام اپنے ذمہ لازم کرنے کو کہتے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اطاعتِ الٰہی کا کوئی عمل اپنے اوپر لازم کرنے کو منت یا نذر ماننا کہا جاتا ہے۔ دراصل منت کسی نیک کام کا وعدہ ہے جو بندہ اپنے خدا سے کرتا ہے۔ جیسے: کوئی شخص کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہر ماہ اتنے روزے رکھنے کی نذر مانتا ہوں یا کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے فلاں کام میں کامیابی دی تو میں اتنا مال صدقہ کروں گا وغیرہ۔

منت یا نذر ماننا شرعاً جائز ہے۔ قرآن کریم نے سابقہ انبیاء، صلحاء اور اقوام کی نذور کا تذکرہ کیا ہے۔ سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کو اللہ تعالیٰ نے نذر کی ترغیب ان الفاظ میں دی ہے:

فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا.

سو تم کھاؤ اور پیو اور (اپنے حسین و جمیل فرزند کو دیکھ کر) آنکھیں ٹھنڈی کرو، پھر اگر تم کسی بھی انسان کو دیکھو تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں نے (خدائے) رحمان کے لئے (خاموشی کے) روزہ کی نذر مانی ہوئی ہے سو میں آج کسی انسان سے قطعاً گفتگو نہیں کروں گی۔

مَرْيَم، 19: 26

حضرت عمران علیہ السلام کی بیوی کی نذر کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یاد دہانی کروائی جا رہی ہے کہ:

إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.

 اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا: اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرما لے، بیشک تو خوب سننے خوب جاننے والا ہے۔

آل عِمْرَان، 3: 35

سورہ بقرہ میں اہلِ ایمان کے نذر ماننے کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے، ارشاد ہے:

وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ.

اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو یا تم جو مَنّت بھی مانو تو اﷲ اسے یقینا جانتا ہے، اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں۔

البقره، 2: 270

منت (نذر) خالصتاً اللہ تعاليٰ کا حق ہے اور صرف اسی کے لئے جائز ہے۔ نذر میں عبادت، نیاز مندی، اور غایتِ تعظیم کے معانی پائے جاتے ہیں جو صرف اللہ تعاليٰ کا حق ہے، اس لئے شرعاً کسی رسول، نبی، ولی یا کسی بزرگ ہستی کے لیے نذر نہیں مانی جائے گی۔ جو لوگ اولیاء اللہ کے مزاروں پر صدقہ کی منت مانتے ہیں دراصل وہ صاحبِ مزار کے ایصالِ ثواب کے لیے اللہ کے حضور صدقہ کرتے ہیں جو زائرین میں تقسیم ہوتا ہے۔ اپنے کسی نیک عمل اور صدقہ و خیرات کا ثواب کسی دوسرے کا ایصال کرنا شرعاً جائز ہے۔ جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے:

أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ.

’’ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقتِ نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب موتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ، 1 : 467، رقم : 1322
  2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، 2 : 696، رقم : 1004

مزارات کی نسبت سے جو نذر مانی جاتی ہے اس میں نذر کا لفظ مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس سے مراد ہدیہ، نذرانہ اور ایصالِ ثواب ہے۔ نذر اور ایصالِ ثواب کو خلط ملط کرنے سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ ایصال ثواب ثابت شدہ شرعی طریقہ ہے۔ کوئی چیز محض کسی بزرگ کی طرف منسوب کرنے سے ناجائز نہیں ہوتی۔ شرعی نذر اﷲ تعاليٰ کے لیے خاص ہے اور یہ شاملِ عبادت ہے، جب اس کی نسبت کسی صاحبِ مزار یا اہل اﷲ کی طرف تو عبادت اﷲ تعاليٰ کی ہی ہوگی، اس سے فائدہ عامۃ‌ الناس اٹھائیں گے اور اس کا ثواب صاحبِ مزار کو ہدیہ کیا جائے گا۔ جس طرح قربانی، عبادت اور دعا اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے، یہ اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کے لیے کی جاتی ہیں مگر اس کا فائدہ طعام یا صدقہ و خیرات کی صورت میں غریب، مسکین، محتاج، مفلس، یتیم اور بے سہارا افراد کو پہنچاتے ہیں۔

اس لیے خواتین کسی مزار کے زائرین کے لیے صدقہ کرنے کی منت ماننا، اس کا ثواب صاحبِ مزار کو ایصال کرنا اور باپردہ رہ کر اپنی منت پوری کرنا جائز ہے۔ نذر ماننا ناجائز تب ہے جب کسی غیراللہ کی خوشنودی کے لئے مانی جائے، یا کسی غیرشرعی عمل کی منت مان لی جائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 11:05:09 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4685/