جواب:
اسلام میں مرد کے لئے دوسری شادی مباح ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أ.
تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)۔
النساء، 4: 3
زمانہ جاہلیت میں کثرتِ ازدواج کا رواج تھا۔ اسلام نے اس کی حد متعین کی اور ایک سے زائد شادی کرنے والے کو مشروط اجازت دیتے ہوئے اس کی حد چار مقرر کی۔
عام طور پر عورتیں کمزور طبیعت کی مالک ہوتی ہیں، پہلی بیوی دوسری کو اور دوسری پہلی کو خود سے کمتر سمجھتی ہے۔ یوں گھریلو جھگڑوں اور فساد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتا ہے جو آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ اس لئے لوگ دوسری شادی سے حتی الوسع اجتناب کرتے ہیں۔ دونوں کے حقوق برابری کے ساتھ ادا کرنا عموماً آسان نہیں اور کسی ایک کے ساتھ ترجیحی سلوک کا وبال بڑا سخت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَتْ لَهُ إِمْرَاَتَانِ يَمِيلُ مَعَ إِحْدَاهُمَا عَلَی الْاُخْرَی جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاَحَدُ شِقَّيْهِ سَاقِطٌ.
’’جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ساقط (گرا ہوا) ہو گا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ:
’اسے اس حال میں گھسیٹا جائیگا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا یا گرا ہوا ہوگا۔‘
احمد بن حنبل، المسند، 2: 295
بہرحال دوسری شادی کیلئے قرآن کریم میں عدل و انصاف کی شرط ہے، اگر عدل نہ کرسکے یا جسمانی و مالی لحاظ سے حقوق زوجیت ادا نہ کر سکے تو ایک سے زائد کی اجازت نہیں، اور اگر ایک بیوی کی بھی مالی و جسمانی لحاظ سے توفیق نہیں تو ایک کی بھی اجازت نہیں۔ اگر آپ مالی اور جسمانی صحت کے لحاظ سے دوسری شادی کی استطاعت رکھتے ہیں تو اپنے علاقہ کی یونین کونسل سے موجود عائلی قوانین (مسلم فیملی لاء) کے تحت پہلی بیوی سے اجازت لے لیں تاکہ شرعی و قانونی تقاضے پورے ہو جائیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔