جواب:
ہمارے معاشرے میں دوسروں پر کفر و گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فتوے لگانا فتنہ پرور لوگوں کا معمول ہے۔ بعض اوقات ایسے فتاویٰ جات سے نوبت قتل و غارت گری اور فساد عامہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس صورت میں اگر کوئی ان سے اختلاف کرے تو اُس پر بھی کفر و ارتداد اور گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً حقیقت شناس علماء بھی اپنی عزت بچانے کے لیے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ ان حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے امت کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے اِس اہم موضوع پر نہایت دقیق علمی و تحقیقی اور مفصل گفتگو کی جس میں ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی کہ گستاخ رسول کون ہوتا ہے؟ کن کلمات سے گستاخی ثابت ہوتی ہے؟ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حرمت دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپس میں کیا تعلق ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟
ان خطابات میں کسی کے جنتی یا دوزخی ہونے کا فیصلہ نہیں سنایا گیا، بلکہ ان عوامل پر بات کی گئی جن کا نتیجہ ایسے حادثات کی صورت میں نکلتا ہے۔ مذکورہ حادثے کے بھی قاتل اور مقتول دونوں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ چکے ہیں‘ ان کا فیصلہ بھی ہم اسی کی بارگاہ میں چھوڑتے ہیں۔ ہمارے دیئے ہوئے سارے القابات ظن و تخمین ہیں‘ حقیقی فیصلہ وہ ہے جو داورِ حشر ان کے بارے میں کرے گا۔
لفظِ شہید کا استعمال ہمارے معاشرے میں رسم بنتا جا رہا ہے۔ ہر مقتول کے نام کے ساتھ اس کے چاہنے والے شہید کا لفظ جوڑ دیتے ہیں۔ شرعاً شہادت دو طرح کی ہے: ایک حقیقی اور دوسری حکمی۔ جو مسلمان میدانِ جنگ میں جہاد کرتے ہوئے راہِ خدا میں اپنے جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے وہ حقیقی شہید ہے۔ اسے غسل وکفن نہیں دیا جائیگا‘ بلکہ جنازہ پڑھ کرانہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے گا جس میں وہ شہید ہوا ہے۔ حکمی شہیدوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو حادثاتی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ متفرق احادیث میں ایسے شہداء کی چالیس سے زیادہ قسمیں مذکور ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِقُ وَصَاحِبُ الْهَدْمِ وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اﷲِ.
’’شہداء پانچ طرح کے ہیں: جو طاعون (یا اس جیسی دیگر مہلک بیماری مثلاً کینسر، ٹی بی، چیچک، ایکسیڈنٹ وغیرہ) سے مر گیا، پیٹ کی بیماری (حیضہ، قولنج، ہارٹ اٹیک وغیرہ) سے مر گیا، جو ڈوب کر (دریا میں، جھیل میں، سمندر میں، سیلاب میں، گلیشئرز میں، کنوئیں یا نہر یا ڈیم میں) مر گیا، جو (مکان وغیرہ کی چھت، پہاڑی تودے، گلیشئر، گاڑی کے نیچے، عمارت کے نیچے) دب کر مر گیا اور جو اﷲ کی راہ میں (دشمنوں، باغیوں، ڈاکؤوں، راہزنوں سے لڑتے ہوئے) قتل ہو گیا۔‘‘
شہادت کی درج بالا پانچ اور دیگر اقسام حکمی ہیں یعنی مرنے والے حقیقی شہید نہیں‘ تاہم اس کی بے کسی و بے بسی کی موت کی بناء پر اسے شہادت کا ثواب ملتا ہے۔ ہمارے کسی کو شہید سمجھنے یا نہ سمجھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ اس سے کسی کی نجات کا فیصلہ ہوتا ہے‘ ہم تو ہر کلمہ گو مسلمان کے لیے مغفرت کی دعا کر سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔