جواب:
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں شراکت سے مراد ایسا کاروبار ہے جس میں دو یا دو سے زیادہ افراد اپنا سرمایہ یا محنت اس طرح ملاتے ہیں کہ ان میں سے ہر فریق کے یکساں حقوق و ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور ان کا مقصد نفع، آمدن یا مشترکہ سرمائے کے اضافے میں طے شدہ نسبت سے حصہ داری اور نقصان کی صورت میں ہر حصہ دار کو سرمائے کی نسبت کے اعتبار سے نقصان برداشت کرنا ہوتا ہے۔ شراکتی کاروبار کے لیے سرمایہ لازمی نہیں‘ ذہنی، جسمانی اور سماجی صلاحیتیں بھی شرکت کی بنیاد بن سکتی ہیں۔
مشترکہ سرمایہ کاری کے سلسلے میں اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ یہ نفع و نقصان کی شراکت (PLS) پر مبنی ہونی چاہیے جس کے تحت کاروبار کے تمام فریق تجارتی خطرات (Risk) برداشت کریں۔ اس کی دو عمومی اقسام ہیں جن کے جواز پر فقہاء کا اجماع ہے:
مشارکہ میں مشترکہ کاروبار کے حصے دار سرمایہ فراہم کرتے ہیں‘ جن کا برابر ہونا لازمی نہیں، نفع کی تقسیم کے لیے پہلے سے کوئی نسبت طے کر لیتے ہیں اور نقصان کی صورت میں ہر حصہ دار اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرتا ہے۔
شراکت کی دوسری اہم شکل مضاربہ ہے‘ یہ سرمائے اور محنت کے اشتراک سے حاصل ہونے والے منافع میں حصہ داری کا ایسا معاہدہ ہے جس میں ایک فریق سرمایہ کے عوض اور دوسرا محنت کے عوض نفع کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ اس میں بھی نفع کی نسبت پہلے سے طے کر لی جاتی ہے کہ منافع کا کتنے فیصد کس فریق کو ملے گا۔ نقصان کی صورت میں سرمایہ دار کا سرمایہ ڈوبتا ہے اور دوسرے فریق کی محنت ضائع ہوتی ہے۔ اپنے سوال میں آپ نے جس سرمایہ کاری کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہی مضاربہ ہے۔ نفع کی تقسیم کے لیے نسبت طے کر لیں، تو آپ کی سرمایہ کاری جائز ہے۔ مضاربہ کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔