Fatwa Online

کیا رزق ہماری محنت سے ملتا ہے یا مقدر سے؟

سوال نمبر:4615

ہمارے ایک عزیز کہتے ہیں کہ زندگی اس کا نام نہیں کہ تسبیح پکڑ کر سارا سارا دن عبادت کی جائے بلکہ حقوق اللہ کے ساتھ رزقِ‌ حلال کے حصول کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اور مرتے وقت اپنی اولاد کے لیے بھی کچھ چھوڑ کرنا جانا چاہیے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا رازق اللہ نہیں‌ ہے؟ کیا اس نے ہمارے اور ہماری اولاد کے رزق کا وعدہ نہیں کیا ہے؟ کیا ہمیں‌ رزق ہماری محنت سے ملتا ہے یا مقدر سے؟ براہِ مہربانی مکمل وضاحت کر دیں۔ شکریہ

سوال پوچھنے والے کا نام: نبیل فیاض

  • مقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 03 دسمبر 2018ء

موضوع:ایمان بالقدر

جواب:

دینِ اسلام مکمل ترین ضابطہ حیات رکھتا ہے جو رہبانیت یا بےمہار آزادی کے درمیان اعتدال پسندی اور میانہ روی کے ساتھ زندگی کے ہر پہلو کی انجام دہی کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادات کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی رزقِ حلال کے حصول کا بھی حکم ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَo

اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لیے پہنتے ہو، اور (اے انسان!) تُو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اس میں چلے جاتے ہیں، اور (یہ سب کچھ اس لیے کیا) تاکہ تم (دور دور تک) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔

النحل، 16: 14

اور سورۃ الجمعہ میں نماز کی طرح رزق تلاش کرنے کا حکم فرما کر حلال روزی کی اہمیت واضح کر دی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَo فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo

اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

الجمعة، 62: 9- 10

اور حدیث مبارکہ میں بھی حلال روزی کمانے کا صریح حکم پایا گیا ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ.

فرائض کے بعد، حلال روزی کمانا فرض ہے۔

بيهقي، السنن الكبرى، 6: 128، رقم: 11475، مكة المكرمة: مكتبة دار الباز

ہر انسان کے لیے ہمہ وقت عبادت گاہ میں مشغول رہنا ممکن نہیں ہے کیونکہ حلال روزی کمانا اور دیگر امور سرانجام دینا انسانی ضروریات میں شامل ہے جبکہ یہ سب امور جائز طریقے سے بروئے کار لانا بھی عبادت ہی میں شمار ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود تجارت کے لیے سفر کیے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

اسْتَأْجَرَتْ خَدِيجَةُ رضی الله عنها رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم سَفْرَتَيْنِ إِلَى جُرَشَ كُلُّ سَفْرَةٍ بِقَلُوصٍ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جرش (یمن کے ایک مقام) کی طرف دوبار تجارت کے لیے اونٹنیوں کے عوض بھیجا۔ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں، اور اسے امام بخاری ومسلم نے تخریج نہیں کیا۔

حاكم، المستدرك على الصحيحين، 3: 200، رقم: 4834، بيروت: دار الكتب العلمية

خواہ ہم زندگی کے کسی بھی موڑ پر ہوں ہمارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ راہ ہدایت ہے، اس لیے ہمیں ہر عمل میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانا چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.

فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔

الاحزاب، 33: 21

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نفلی عبادات میں اس قدر زیادتی کرنے سے منع فرما دیا کہ جس سے مالی، جانی اور ازدواجی حقوق وغیرہ کی ادائیگی میں رکاوٹ آئے جیسے حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:

أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ؟ قُلْتُ: إِنِّي أَفْعَلُ ذَلِكَ، قَالَ: فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ عَيْنُكَ، وَنَفِهَتْ نَفْسُكَ، وَإِنَّ لِنَفْسِكَ حَقًّا، وَلِأَهْلِكَ حَقًّا، فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ.

مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تم رات کو قیام کرتے اور دن کو روزہ رکھتے ہو؟ عرض گزار ہوا کہ واقعی میں ایسا کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم یہ کرتے ہو تو تمہاری آنکھیں بھی کمزور ہوں گی اور تمہاری طبیعت بھی سست پڑے گی، جب کہ تم پر اپنی جان اور اپنے گھر والوں کا بھی حق ہے، لہٰذا روزے رکھو اور چھوڑ بھی دیا کرو۔ قیام کرو اور سویا بھی کرو۔

بخاري، الصحيح، كتاب الكسوف، باب ما يكره من ترك قيام الليل لمن كان يقومه، 1: 387، رقم: 1102، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بلایا تو وہ حاضر خدمت ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يَا عُثْمَانُ أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِى؟ قَالَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ. قَالَ: فَإِنِّى أَنَامُ وَأُصَلِّى وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأَنْكِحُ النِّسَاءَ فَاتَّقِ اللَّهَ يَا عُثْمَانُ فَإِنَّ لأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا فَصُمْ وَأَفْطِرْ وَصَلِّ وَنَمْ.

اے عثمان کیا تم میری سنت کو ناپسند کرتے ہو؟ عرض گزار ہوئے کہ خدا کی قسم یارسول اﷲ ایسا نہیں ہے بلکہ میں تو آپ کی سنت کا طالب ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تو سوتا ہوں اور نماز پڑھتا ہوں۔ روزے رکھتا ہوں اور چھوڑتا ہوں نیز عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ اے عثمان! اﷲ سے ڈرو کیونکہ تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا تم پر حق ہے، لہٰذا روزےرکھو اور چھوڑا بھی کرو۔ نماز پڑھو اور سویا بھی کرو۔

أبو داود، السنن، كتاب الصلاة، باب ما يؤمر به من القصد في الصلاة، 2: 48، رقم: 1369، دار الفكر

معلوم ہوا کہ انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے حلال روزی کمانے کا حکم شرعی ہے۔ جو ہمارے مقدر میں لکھا ہے، وہ تقدیر الہٰی ہے اور تقدیر، علم الٰہی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے؟ اسے وہی بہتر جانتا ہے ہمیں اس پر اتنا ایمان رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ہوتا ہے، اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔ لیکن ہم تقدیر کے مکلف نہیں بلکہ احکام شرع کے پابند ہیں۔ لہٰذا ہمیں تمام امور اپنے اپنے وقت پر محنت وخلوص اور منصوبہ بندی کے ساتھ سر انجام دینے کا حکم ہے، پھر جو بھی مل جائے، اس اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 10:35:05 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4615/