جواب:
عقل و نقل اس بات پر متفق ہیں کہ کسی شخص کا مؤاخذہ اس کے خیالات پر نہیں‘ بلکہ عمل پر ہونا چاہیے۔ یہی اصول طلاق کے بارے میں بھی ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر دل میں طلاق کا خیال آیا یا دل میں طلاق دینے کا ارادہ کیا (اور زبان سے کچھ نہ کہا) تو طلاق نہیں ہوئی۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
إِنَّ اﷲَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ.
اﷲتعالیٰ نے میری اُمت کے اُن خیالات کو معاف فرمادیا ہے جو دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک ان کے مطابق عمل یاکلام نہ کریں۔
بخاري، الصحیح، 5: 2020، رقم: 4968، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
اگر یہ محض وسوسہ ہے تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ جب اس طرح کا وسوسہ آئے تو معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) پڑھ لیا کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔