Fatwa Online

عبادت اور پوجا میں کیا فرق ہے؟

سوال نمبر:4505

عبادت اور پوجا میں کیا فرق ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: شاہد اقبال

  • مقام: چکوال
  • تاریخ اشاعت: 21 نومبر 2017ء

موضوع:عبادات

جواب:

عِبادَت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنیٰ غلامی و بندگی اور انتہائی درجے کی عاجزی و انکساری ہے۔ اصطلاحاً خدائے واحد کی پرستش یا مذہبی ارکان جو خدا کی اطاعت اور پرستش کے لیے ادا کیے جائیں، عبادت کہلاتے ہیں۔ عام طور پر خدائے واحد کے احکام ماننے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پُوجا سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنیٰ پرستش ہے۔ عام طور پر بتوں بت پرستی یا بتوں کی تعظیم و تکریم کے آداب و رسوم کو پوجا کا نام دیا جاتا ہے۔

عبادت اور پوجا اگرچہ مترادف سمجھے جاتے ہیں مگر ان میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پوجا لفظ کا اپنے تمام تر مفہوم میں نے بھی خدا کی پرستش تک محدود ہے جبکہ اسلام کا تصورِ عبادت بہت وسیع ہے۔ قرآن مجید عبادت مفہوم بیان کرتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اس میں شامل کیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:

وَاعْبُدُواْ اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُواْ بِهِ شَیْئاً وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً وَبِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْجَارِ ذِیْ الْقُرْبَی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَن کَانَ مُخْتَالاً فَخُوراً.

’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو۔‘‘

(نساء، 3: 36)

قوم شعیب کے ناقص تصور عبادت کو بیان کرتے ہوئے سیدنا شعیب علیہ السلام کے ذریعے ان کے مالی معاملات میں انصاف سے کام لینے کو بھی عبادت کا حصہ قرار دیا ہے:

وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّيَ أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ. وَيَا قَوْمِ أَوْفُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ.

’’اور (ہم نے اہلِ) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام کو بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور ناپ اور تول میں کمی مت کیا کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور میں تم پر ایسے دن کے عذاب کا خوف (محسوس) کرتا ہوں جو (تمہیں) گھیر لینے والا ہے۔ اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو۔‘‘

فی الحقیقت اسلام میں انسان کا ہر نیک عمل عبادت اور باعث اجر ہے، خواہ وہ عمل بادی النظرمیں بالکل حقیر ہو، سراسر دنیا کا کام معلوم ہوتا ہو، بشرطیکہ اس عمل سے خدا کی رضا اور اس کا تقرب مطلوب ہو۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 19 April, 2024 05:51:59 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4505/