Fatwa Online

حرام ذرائع سے حاصل کردہ آمدنی سے صدقہ و خیرات کرنا کیسا ہے؟

سوال نمبر:4473

السلام علیکم! اگر کسی شخص کے پاس پیسے جن میں سے کچھ حلال ذرائع سے کمائے ہوئے اور اور کچھ حرام سے، اگر وہ شخص ان پیسوں سے حج کرنا چاہے یا صدقہ و خیرات کرنا چاہے اس نیت کے ساتھ کہ حلال سے خرچ کر رہا ہوں تو کیا اس کا حج، زکوٰۃ یا صدقہ قبول ہوگا؟

سوال پوچھنے والے کا نام: ہارون خان

  • مقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 14 نومبر 2017ء

موضوع:صدقات

جواب:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ یَّتَّقِ اﷲَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاo وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ.

اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے۔ اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔

الطلاق، 65: 2، 3

جس شخص کو یہ احساس ہو جائے کہ وہ اپنی کمائی سے حج وعمرہ اور زکوٰۃ وصدقات پر خرچ کرے تو قبول ہو گا یا نہیں تو ایسے شخص کو حرام کمانے سے توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ کے لئے اﷲ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے تاکہ اﷲ اُسے حیران کن ذرائع سے روزی عطا فرمائے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے۔ رہی بات کہ حرام کی کمائی اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے سے قابلِ قبول ہو گی یا نہیں تو اس کے بارے میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ اﷲَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا وَإِنَّ اﷲَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِینَ فَقَالَ {یٰٓـاَیُّهَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًاط اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ} [المؤمنون: 23: 51] وَقَالَ {یاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰـکُمْ} [البقرۃ، 2: 172] ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْهِ إِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ یَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا: {اے رُسُلِ (عظام!) تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو (جیسا کہ تمہارا معمول ہے) اور نیک عمل کرتے رہو، بے شک میں جو عمل بھی تم کرتے ہو اس سے خوب واقف ہوں}، اور فرمایا:{اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں} پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو، اس کا لباس حرام ہو اور اس کی غذا حرام ہو تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی؟

  1. مسلم، الصحیح، 2: 703، رقم: 1015، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 328، رقم: 8330، مصر: مؤسسة قرطبة
  3. ترمذي، السنن، 5: 220، رقم: 2989، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

اللہ تعالیٰ کو حرام ذرائع سے حاصل کردہ کمائی پسند نہیں ہے۔ ایسا شخص اولاً تو توبہ و استغفار کرے، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرے، نماز روزہ کی پابندی اور حج و عمرہ کا اہتمام کرے، قبول یا رد کرنا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے۔ اس کے برعکس حرام کی کمائی بھی حاصل کرتا رہے اور اسی میں سے صدقہ و خیرات کر کے سمجھے کہ میں بہت ثواب کما رہا ہوں تو یہ خام خیالی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 20 April, 2024 10:15:41 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4473/