جواب:
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
إِذَا قَضَی الْإِمَامُ الصَّلَاةَ وَقَعَدَ فَأَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ یَتَکَلَّمَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُهُ وَمَنْ کَانَ خَلْفَهُ مِمَّنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ.
جب امام نماز پوری کرکے قعدہ میں بیٹھا ہو اور کلام کرنے سے پہلے اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کی نماز پوری ہو گئی اور جن مقتدیوں نے اس کے پیچھے ساری نماز پڑھی ہے ان کی نماز بھی پوری ہو گئی۔
اور امام ترمذی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
إِذَا أَحْدَثَ یَعْنِي الرَّجُلَ وَقَدْ جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ قَبْلَ أَنْ یُسَلِّمَ فَقَدْ جَازَتْ صَلَاتُهُ.
اگر کوئی شخص آخری قعدہ میں سلام پھیرنے سے پہلے بے وضو ہو جائے اس کی نماز جائز ہے۔
احادیث کے مطابق قعدہ اخیرہ میں بقدر تشہد کے بعد وضو ٹوٹ جانے سے نماز ادا ہو جاتی ہے اور یہی احناف کا موقف ہے۔ علامہ عبدالرحمن الجزیری بیان کرتے ہیں:
تبطل الصلاة إذا طرأ علی المصلي ناقض الوضوء، أو الغسل، أو التیمم، أو المسح علی الخفین، أو الجبیرة، ما دام المصلي لم یفرغ من صلاته بالسلام، وہذا الحکم متفق علیه، إلا عند الحنفیة.
نماز کے دوران سلام پھیرنے سے پہلے پہلے اگر کوئی شے ایسی لاحق ہو جس سے وضو یا غسل یا تیمم یا موزوں کا مسح یا (زخم کی) پٹی کا مسح ٹوٹ جائے تو نماز باطل ہو جائے گی۔ اس مسئلہ میں حنفیہ کے سوا سب متفق ہیں۔
اور حنفیہ کہتے ہیں:
إنما یبطل طرو ناقض لهذه الأمور إذا کان قبل القعود الأخیر بقدر التشهد. أما إذا طرأ بعده فلا تبطل به الصلاة علی الراجح.
ان امور ناقص وضو میں سے اگر کوئی امر لاحق ہو جائے تو نماز باطل ہو جائے گی، بشرطیکہ قعدہ اخیرہ بقدر تشہد سے پہلے ہو۔ اگر اس کے بعد کوئی ایسی شے لاحق ہو جائے تو راجع قول کے مطابق نماز باطل نہیں ہوتی۔
عبدالرحمٰن الجزیري، کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 1: 278، بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیة
اس لیے آخری قعدہ میں تشہد پڑھنے کے بعد وضو ٹوٹ جائے تو نماز مکمل ہو جائے گی، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کر نماز سے خروج مسنون عمل ہے جبکہ تشہد کے بعد حدث لاحق ہونے سے بھی خروج نماز ہو جائے گاپھر سلام پھیرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔