جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
تین طلاقیں ایک ہی بار دینا ایک ناپسندیدہ و ناجائز عمل ہے۔ تمام فقہائے اسلام طلاقِ ثلاثہ (تین طلاق) کو فاسد، باطل اور بدعت قرار دیتے ہیں۔ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
أُخْبِرَ رَسُولُ ﷲِ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثَ تَطْلِیقَاتٍ جَمِیعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ: أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اﷲِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِکُمْ.
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دی ہیں۔ یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور غصہ کی حالت میں ارشاد فرمانے لگے: کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب مقدس کی صریح تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا ہے حالانکہ میں تم میں موجود ہوں۔
نسائي، السنن، 6: 142، رقم: 3401، حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیه
بہ یک وقت ”تین طلاق“ دینا سخت گناہ ہے، قرآنِ پاک کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف، بلکہ قرآنِ پاک کے ساتھ ایک طرح کا کھیل اور مذاق ہے‘ تاہم ایک دفعہ میں دی ہوئی تین طلاق جمہورِ امت کے نزدیک واقع ہوجاتی ہیں۔ طلاقِ ثلاثہ سے طلاقِ مغلطہ واقع ہو جاتی ہے جس سے میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتے ہیں۔
جب میاں بیوی کے درمیان اختلاف ایسا شدید ہوجائے کہ ایک ساتھ رہنا ممکن نہ ہو تو دونوں طرف کے ایک ایک یا چند افراد جمع ہوکر اختلاف کی وجوہات پر محض اللہ واسطے غور کریں، اگر اتفاق کی کوئی صورت سمجھ میں آجائے تو فبہا‘ لیکن اگر خدشہ ہو کے اکٹھے رکھنے کے صورت میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں تو طلاق کی صورت پیش آتی ہے۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو سب سے پہلے اسے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کی بیوی ایامِ حیض میں تو نہیں؟ اگر بیوی ایامِ حیض میں ہے تو حیض کے ختم ہونے کا انتظار کرے۔ ایامِ حیض کے خاتمے کے بعد ایامِ طُہر (پاکیزگی کے دنوں) میں جنسی تعلق قائم کیے بغیر ایک دفعہ طلاق دے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًاO
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے۔
الطَّلاَق، 65: 1
حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:
وَجْهُ الطَّلَاقِ لِقُبُلِ عِدَّتِهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، ثُمَّ يَتْرُكُهَا حَتَّى تَخْلُوَ عِدَّتُهَا، فَإِنْ شَاءَ رَاجَعَهَا قَبْلَ ذَلِكَ رَاجَعَهَا.
عدت کے لحاظ سے طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو طُہر (پاکیزگی) کے ایام میں چھوئے بغیر ایک طلاق دے، پھر اس کو چھوڑ دے یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے یا عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کرنا چاہے تو کر لے۔
عبدالرزاقم المصنف، 6: 301، رقم: 10920، بیروت، المکتب الاسلامی
طلاق کے بعد بیوی ایامِ عدت شوہر کے گھر میں ہی گزارے گی۔ حائضہ (جسے حیض آتا ہو) کی عدت تین حیض، آئسہ (جسے بیماری، کم عمری یا سن رسیدگی کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو) کی عدت تین مہینے اور حاملہ (جسے حمل ہو) کی عدّت وضعِ حمل (بچے کی پیدائش) ہے۔ اگر کسی نئے شادی شدہ جوڑے کی جنسی تعلق قائم ہونے سے پہلے طلاق ہوجائے تو بیوی کو کسی عدت کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید کے مطابق عدت گزارنے کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس دوران شوہر اور خاندان کے دوسرے افراد کو اس ناچاکی کا ازالہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ جب جذبات مشتعل ہوتے ہیں تو ان کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بعض اوقات وقت درکار ہوتا ہے۔
ایک طلاق دینے سے طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے جس کے بعد ایامِ عدت میں میاں بیوی کے پاس صلح و رجوع کا حق ہوتا ہے۔ اگر رجوع کی کوئی صورت بن جائے تو درست ورنہ عدت کی مدت پوری ہونے تک مزید کوئی طلاق نہ دی جائے۔ عدت پوری ہونے پر نکاح ختم ہو جائے گا‘ بیوی نئے نکاح کے لیے آزاد ہوگی، چاہے سابقہ شوہر کے ساتھ نیا نکاح کرلے یا چاہے کسی اور مرد سے دستور کے مطابق شادی کر لے۔ عدت پوری ہونے پر دوسری اور تیسری طلاق دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
شریعتِ اسلامیہ میں طلاق کا کوئی کفارہ نہیں ہے، پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت کی مدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کی گنجائش ہوتی ہے اور عدت کے بعد تجدیدِ نکاح کی، تین طلاق سے طلاقِ مغلظہ واقع ہو جاتی ہے جس کے بعد بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے، یہ حرمت کسی کفارہ سے ختم نہیں ہوتی۔ اگر کسی نے بغیر وجہ کے‘ بےگناہ بیوی کو طلاق دی ہے تو بیوی سے معافی مانگے اور خدا تعالیٰ سے توبہ کرے۔
شادی کے موقع پر حق مہر اور دیگر تحائف جو خاوند کی طرف سے بیوی کو دئیے جاتے ہیں، قرآن پاک میں طلاق کے بعد ان کو واپس لینے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناًO
اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو۔
النساء، 4: 20
اور حدیث مبارکہ میں تحائف کی واپسی کے بارے میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ، قَالَ النَّبِيُّ الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ کَالْکَلْبِ یَعُودُ فِي قَیْئِهِ لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ۔.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی ہبہ (gift) کی ہوئی چیز کو واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر اسے کھا لیتا ہے۔ ہم مسلمانوں کی شان بری مثالوں کو اپنانا نہیں۔
اس لیے جو تحائف شوہر نے بیوی کو دیئے ہیں وہ واپس لینا جائز نہیں ہے۔ اگر تحائف میں دیے گئے زیورات کے علاوہ کوئی شے بیوی کو دی ہے جس کے ساتھ بتایا ہے کہ یہ تمہاری نہیں‘ وہ واپس لے سکتے ہیں۔ لیکن دیئے گئے تحائف طلاق کی وجہ سے واپس مانگنا ناپسندیدہ اور ناجائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔