Fatwa Online

طلاق بائن کے بعد زوجین کو تجدید نکاح سے روکا جاسکتا ہے؟

سوال نمبر:4417

اسلام علیکم مفتی صاحب! مجھے درج ذیل مسائل میں راہنمائی درکار ہے:

1۔ زید کی فون پر اپنی بیوی سے لڑائی ہو رہی تھی زید نے قسم کھائی کے میں تمہیں طلاق دوں گا اس طرح کافی ٹائم تک وہ بولتا رہا پھر اس نے ایک بار کہا کے میں نے تمہیں طلاق دی اور کہا کے باقی دو طلاق میں گھر آ کر دے دوں گا اور کال کاٹ دی۔ اس کے بعد اس کی بیوی اپنے میکے چلی گئی اس کے بعد زید کی بیوی کے بھائی کا فون آیا وہ زید سے پوچھنے لگا کہ تم نے کیا بولا اپنی بیوی کو؟ تو زید نے کہا کے میں نے قسم کھائی کے میں تمہیں طلاق دوں گا اور ایک بار طلاق دے دی۔ آگے سے زید کی بیوی کے بھائی نے کہا کہ تم نے یہ بھی کہا کہ: تم میری طرف سے آزاد ہو؟ تب زید کو یاد نہیں تھا کہ اس نے یہ الفاظ بولے ہیں یا نہیں‘ وہ اس وقت غصے میں تھا اور ہاں کہ دی۔ بعد میں زید نے کافی زور ڈالا دماغ پر لیکن اس کو یاد نہیں آیا کہ میں نے یہ الفاظ بولے یا نہیں اور وہ قسم کھاتا ہے کے اسے یاد نہیں۔ کہتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ یہ الفاظ بولے بھی ہیں تو ان الفاظ کا مطلب بیوی کو ڈرانا دھمکانا تھا غصے میں طلاق دینا نہیں۔ اب طلاق کا کیا حکم ہے؟

2۔ میرے دوست کی بہن کو اس کے خاوند نے طلاق بائن دی اور وہ اپنے میکے آگئی اس کے بعد طلاق کی عدت گزر گئی اور انہوں نے تجدید نکاح نہیں کیا۔ اب ایک ہفتہ پہلے لڑکی گھر میں کہتی ہے کے اس نے اپنے شوہر سے نکاح کر لیا تھا جب کے اس کے گھر والوں کو اس کا علم نہیں اور نہ ہی اس کے گھر والے اس بات کو ماننے پر تیار ہیں۔ لڑکے سے پوچھا گیا تو وہ بھی ہاں میں جواب دے رہا ہے اور وہ کہتا ہے کے اس کے گواہ بھی ہیں۔ جب کے لڑکی کے گھر والے بالکل یے یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کے لڑکی جب گھر سے باہر ہی نہیں گئی تو نکاح کیسے کر لیا اور جب لڑکی سے حق مہر کا پوچھا گیا تو لڑکی کہتی ہے کے وہ میں نے معاف کر دیا تھا اب گھر والے اس بات سے انکار کر رہے ہیں اور لڑکی کہتی ہے کے وہ میرا شوہر ہے۔ اب آپ اس مسلے کا حل بتایے۔ اسلام کی رو سے کے اب کس کی بات کو مانا جائے لڑکی یا اس کے گھر والوں کی؟

سوال پوچھنے والے کا نام: عثمان

  • مقام: ملتان
  • تاریخ اشاعت: 07 اکتوبر 2017ء

موضوع:طلاق  |  طلاق بائن

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. اگر زید نے ایک ہی طلاق دی ہے اور ’تم میری طرف سے آزاد ہو‘ کے الفاظ نہیں بولے تھے تو وہ عدت کے اندر رجوع کر لے۔ غصہ کی شدت میں زید نے طلاق کا اقرار کیا بھی ہے تو زید کی اس کیفیت کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اگر زید کو یاد نہیں کہ اس نے کیا الفاظ کہے ہیں تو احتیاطاً تجدیدِ نکاح کر لیں‘ اور آئندہ کے لیے اس حماقت سے تائب ہو جائیں۔
  2. اگر زید نے طلاقِ بائن دی تھی تو تجدیدِ نکاح کے بعد ان کا ازدواجی تعلق بحال ہو گیا اور طلاق کا اثر ختم ہوگیا ہے، گھر والوں کو تجدیدِ نکاح کا علم ہونا ضروری نہیں۔ اگر میاں بیوی نے دو مسلمان مرد گواہوں کی موجودگی میں بعوضِ حق مہر‘ ایجاب و قبول کیا ہے تو تجدیدِ نکاح ہو گیا، کسی کو یہ نکاح جھٹلانے کا کوئی حق نہیں۔ اگر گھر والوں کو اس نکاح کا یقین نہیں ہے تو وہ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.

اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔

البقره، 2: 232

لہٰذا جب تجدیدِ نکاح کی گنجائش موجود ہو تو لڑکی کی بات مانی جائے گی، مسئلہ مسؤلہ میں بھی اگر گھر والے پہلے نکاح کو نہیں مان رہے تو گھر والے دوبارہ نکاح کروا دیں، لیکن نکاح سے روکنے کا انہیں کوئی حق نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 19 April, 2024 08:33:47 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4417/