اسلام علیکم مفتی صاحب! مجھے درج ذیل مسائل میں راہنمائی درکار ہے:
1۔ زید کی فون پر اپنی بیوی سے لڑائی ہو رہی تھی زید نے قسم کھائی کے میں تمہیں طلاق دوں گا اس طرح کافی ٹائم تک وہ بولتا رہا پھر اس نے ایک بار کہا کے میں نے تمہیں طلاق دی اور کہا کے باقی دو طلاق میں گھر آ کر دے دوں گا اور کال کاٹ دی۔ اس کے بعد اس کی بیوی اپنے میکے چلی گئی اس کے بعد زید کی بیوی کے بھائی کا فون آیا وہ زید سے پوچھنے لگا کہ تم نے کیا بولا اپنی بیوی کو؟ تو زید نے کہا کے میں نے قسم کھائی کے میں تمہیں طلاق دوں گا اور ایک بار طلاق دے دی۔ آگے سے زید کی بیوی کے بھائی نے کہا کہ تم نے یہ بھی کہا کہ: تم میری طرف سے آزاد ہو؟ تب زید کو یاد نہیں تھا کہ اس نے یہ الفاظ بولے ہیں یا نہیں‘ وہ اس وقت غصے میں تھا اور ہاں کہ دی۔ بعد میں زید نے کافی زور ڈالا دماغ پر لیکن اس کو یاد نہیں آیا کہ میں نے یہ الفاظ بولے یا نہیں اور وہ قسم کھاتا ہے کے اسے یاد نہیں۔ کہتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ یہ الفاظ بولے بھی ہیں تو ان الفاظ کا مطلب بیوی کو ڈرانا دھمکانا تھا غصے میں طلاق دینا نہیں۔ اب طلاق کا کیا حکم ہے؟
2۔ میرے دوست کی بہن کو اس کے خاوند نے طلاق بائن دی اور وہ اپنے میکے آگئی اس کے بعد طلاق کی عدت گزر گئی اور انہوں نے تجدید نکاح نہیں کیا۔ اب ایک ہفتہ پہلے لڑکی گھر میں کہتی ہے کے اس نے اپنے شوہر سے نکاح کر لیا تھا جب کے اس کے گھر والوں کو اس کا علم نہیں اور نہ ہی اس کے گھر والے اس بات کو ماننے پر تیار ہیں۔ لڑکے سے پوچھا گیا تو وہ بھی ہاں میں جواب دے رہا ہے اور وہ کہتا ہے کے اس کے گواہ بھی ہیں۔ جب کے لڑکی کے گھر والے بالکل یے یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کے لڑکی جب گھر سے باہر ہی نہیں گئی تو نکاح کیسے کر لیا اور جب لڑکی سے حق مہر کا پوچھا گیا تو لڑکی کہتی ہے کے وہ میں نے معاف کر دیا تھا اب گھر والے اس بات سے انکار کر رہے ہیں اور لڑکی کہتی ہے کے وہ میرا شوہر ہے۔ اب آپ اس مسلے کا حل بتایے۔ اسلام کی رو سے کے اب کس کی بات کو مانا جائے لڑکی یا اس کے گھر والوں کی؟
جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔
البقره، 2: 232
لہٰذا جب تجدیدِ نکاح کی گنجائش موجود ہو تو لڑکی کی بات مانی جائے گی، مسئلہ مسؤلہ میں بھی اگر گھر والے پہلے نکاح کو نہیں مان رہے تو گھر والے دوبارہ نکاح کروا دیں، لیکن نکاح سے روکنے کا انہیں کوئی حق نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔