جواب:
بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسئلہ کی نوعیت سمجھے بغیر دونوں پر ایک ہی حکم جاری کر دیتے ہیں جو عوام الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہم ذیل میں دونوں موضوعات پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اﷲِج فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآئَهُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّيْنِ وَمَوَالِيْکُمْط
تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔
الاحزاب، 33: 5
آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اُن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ يَقُولُ: لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ يَقُولُ: مَنِ ادَّعَی إِلَی غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔
باپ دادا سے منہ پھیرنے والے کا حکم:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ کُفْرٌ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے آبا و اجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔
باپ کی بجائے غیر کی طرف نسب ظاہر کرنا بھی باعث لعنت ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ: مَنْ انْتَسَبَ إِلَی غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ تَوَلَّی غَيْرَ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اﷲ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
ابن ماجه، السنن، 2: 870، رقم: 2609، بيروت: دار الفکر
مذکورہ بالا قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً پاکستانی، عربی، دمشقی، کوفی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشندی، چشتی، سہروردی، شازلی، سلفی دیوبندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ضَرَبَ اﷲُ مَثَـلًا لِّلَّذِيْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍط
اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت (واعلہ) اور لوط (علیہ السلام) کی عورت (واہلہ) کی مثال بیان فرمائی ہے۔
التحريم، 66: 10
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے۔ اور درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے:
وَضَرَبَ اﷲُ مَثَـلًا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَم.
اور اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجۂِ فرعون (آسیہ بنت مزاحم) کی مثال بیان فرمائی ہے۔
التحريم، 66: 11
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اﷲ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی:
امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ.
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔
بخاري، الصحيح، 2: 531، رقم: 1393
اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔ اور حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:
هَذِهِ زَوْجَةُ النَّبِيِّ.
یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔
بخاري، الصحيح، 5: 1950، رقم: 4780
جلیل القدر صحابی حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے اُن کے والد کی بجائے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کی، اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہرات کی نسبت متعدد بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل ہے:
عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، مَيْمُونَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، حَفْصَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، صَفِيَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، سَوْدَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ.
لہٰذا عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا میں ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔ تحقیق کئےبغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔