جواب:
اسلام کثرت کی بجائے وحدت اور انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کو چاہتا ہے، اسی کا اظہار نمازِ پنجگانہ، جمعہ کی نماز اور عیدین کے اجتماعات میں ہوتا ہے۔ جمعہ و عیدین کے اجتماعات شعائرِ اسلام ہیں جن کے ذریعے غیرمسلموں کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا مظاہرہ ہوتا ہے، اسی وجہ سے شریعت نے ان کو نمازِ پنجگانہ سے ہٹ کر پرشکوہ انداز میں قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی نماز عید کا اجتماع بڑے میدان میں ہوتا تھا کیونکہ مسجدِ نبوی اس دور میں اتنی وسیع نہیں تھی کہ جس میں سارا اجتماع سما سکتا۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ دورِ نبوی کا معمول ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
کَانَ رَسُولُ اﷲِ یَخْرُجُ یَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَی إِلَی الْمُصَلَّی.
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر یا عید الاضحی کے روز عیدگاہ تشریف لے جاتے۔
بخاري، الصحیح، 1: 326، رقم: 913، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ:
أَنَّ النَّبِيَّ کَانَ یَنْحَرُ أَوْ یَذْبَحُ بِالْمُصَلَّی.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدگاہ میں نحریا ذبح کیا کرتے۔
بخاري، الصحیح، 1: 333، رقم: 939
معلوم ہوا کہ نماز عید مسجد میں ادا نہیں کی جاتی تھی بلکہ کھلی جگہ پر ادا کی جاتی تھی جہاں بعد میں جانور بھی ذبح کیا کرتے تھے۔ ایک اور حدیث مبارکہ ہے:
أَنَّہُ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ فِي یَوْمِ عِیدٍ فَصَلَّی بِهِمْ النَّبِيُّ صَلَاةَ الْعِیدِ فِي الْمَسْجِدِ.
ایک دفعہ عید کے موقع پر بارش ہو رہی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ عید مسجد میں پڑھائی۔
أبي داود، السنن، 1: 301، رقم: 1160، بیروت: دار الفکر
شرعاً ایک عیدگاہ یا مسجد میں عید کی دوسری جماعت کروانا مکروہ ہے، اس لیے اسے معمول نہیں بننا چاہیے۔ تاہم اگر کوئی شرعی عذر درپیش ہے جیسے بارش، خوف یا حکومتی پابندی وغیرہ تو ایک سے زائد جماعتیں کروائی جاسکتی ہیں۔ اس صورت میں ایک امام ایک ہی بار جماعت کروائے گا، دوسری جماعت کے لیے امام تبدیل کیا جائے گا۔ تمام جماعتوں کے بعد آخری میں ایک ہی خطبہ کافی ہے۔ عید کی نماز میں خطبہ سنت ہے‘ اگر نہ پڑھا گیا تو نمازِ عید مکروہ ہو گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔