جواب:
آپ کے دو سوالات ہیں، دونوں کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِيْلِ طفَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِط وَاﷲُ عَلِيْمٌ حَکِيْمٌo
بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
التوبة، 9: 60
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں آٹھ مصارف زکوٰۃ بیان کئے گئے ہیں، جن میں سے ایک ’فی سبیل اﷲ‘ کا بھی ہے۔ اس مصرف کے بارے میں فقہائے کرام کی رائے ہے کہ:
و في سبيل اﷲ عبارة عن جميع القرب فيدخل فيه کل من سعی في طاعة اﷲ وسبيل الخيرات إذا کان محتاجا.
فی سبیل اﷲ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام ہیں۔ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اﷲ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ ودو کرے، جبکہ (اس کے لیے وہ زکوٰۃ کی رقم کا) حاجت مند ہو۔
اس لیے ہماری رائے میں مفاد عامہ کی نیت سے ٹھنڈے پانی کا کولر لگانا بھی فی سبیل اللہ کے مصرف میں شامل ہے۔ اس لیے آپ زکوٰۃ کی رقم سے کولر لگوا سکتے ہیں۔
والفقير هو الذی يملک اقل من النصاب او يملکه و هو مستغرق فی حاجته.
فقیر وہ شخص ہے جو نصاب سے بہت کم مال رکھتا ہو اور اپنی ضروریات پوری کرنے میں غرقاب ہو۔
شرنبلالی، نورالايضاح، 1: 133، دمشق، دارالحکمة
گویا شرعاً فقیر اس شخص کو کہتے ہیں جسے غربت و افلاس کی وجہ سے ضروریاتِ زندگی بھی پوری طرح میسر نہ ہوں، اور جو بڑی مشکل سے گزر بسر کر رہا ہو۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔