Fatwa Online

کیا فاطمہ بنت اسد کی تدفین کی حدیث صحیح ہے؟

سوال نمبر:4222

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں‌ نے فرمایا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم (رضی اللہ عنہما) فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کے سر کی طرف بیٹھ گئے۔ فرمایا: ’اے میری ماں! اللہ تجھ پر رحم کرے، میری (حقیقی) ماں کے بعد آپ میری ماں تھیں، خود بھوکی رہتیں اور مجھے خوب کھلاتی، خود کپڑے (چادر) کے بغیر سوتی اور مجھے کپڑا پہناتیں، خود بہترین کھانا نہ کھاتی اور مجھے کھلاتی تھیں، آپ کا مقصد اس (عمل) سے اللہ کی رضامندی اور آخرت کاگھر تھا۔‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ انھیں تین، تین دفعہ غسل دیا جائے، پھر جب اس پانی کا وقت آیا جس میں کافور (ملائی جاتی) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے ان پر پانی بہایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتار کر انھیں پہنا دی اور اسی پر انھیں کفن دیا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید، ابو ایوب الانصاری، عمر بن الخطاب اور ایک کالے غلام کو بلایا تاکہ قبر تیار کریں پھر انھوں نے قبر کھودی، جب لحد تک پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے کھودا اور اپنے ہاتھ سے مٹی باہر نکالی پھر جب فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قبر میں داخل ہوکر لیٹ گئے اور فرمایا: ’اللہ ہی زندہ کرتا اور وہی ہے جو مارتا ہے اور اسے کبھی موت نہیں‌ آئے گی۔ اے اللہ! میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور ان کی راہنمائی فرما، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے نبیوں کے وسیلے سے ان کی قبر کو وسیع کردے، بے شک تو ارح الراحمین ہے۔‘ پھر آپ نے ان پرچار تکبیریں کہیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)، عباس اور ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہما (تینوں) نے اسے قبر میں اتار دیا۔

کیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟

سوال پوچھنے والے کا نام: عمران سعید

  • مقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 27 مئی 2017ء

موضوع:حدیث اور علم حدیث

جواب:

جس حدیثِ مبارکہ کے بارے میں آپ نے دریافت کیا ہے اس کا عربی متن درج ذیل ہے:

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ زُغْبَةَ قَالَ: نا رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ قَالَ: نا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا مَاتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدِ بْنِ هَاشِمٍ أُمُّ عَلِيٍّ، دَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِهَا، فَقَالَ: «رَحِمَكِ اللَّهُ يَا أُمِّي، كُنْتِ أُمِّي بَعْدَ أُمِّي، تَجُوعِينَ وتُشْبِعِينِي، وتَعْرَيْنَ وتَكْسُونَنِي، وتَمْنَعِينَ نَفْسَكِ طَيِّبَ الطَّعَامِ وتُطْعِمِينِي، تُرِيدِينَ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ» . ثُمَّ أَمَرَ أَنْ تُغْسَلَ ثَلَاثًا وَثَلَاثًا، فَلَمَّا بَلَغَ الْمَاءَ الَّذِي فِيهِ الْكَافُورُ، سَكَبَهُ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ثُمَّ خَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ فَأَلْبَسَهَا إِيَّاهُ، وكُفِّنَتْ فَوْقَهُ، ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَأَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ، وَعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، وَغُلَامًا أَسْوَدَ يَحْفِرُوا، فَحَفَرُوا قَبْرَهَا، فَلَمَّا بَلَغُوا اللَّحْدَ حَفَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَأَخْرَجَ تُرَابَهُ بِيَدِهِ. فَلَمَّا فَرَغَ، دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فاضْطَجَعَ فِيهِ، وَقَالَ: «اللَّهُ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، اغْفِرْ لِأُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتِ أَسَدٍ، ولَقِّنْهَا حُجَّتَهَا، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مُدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي، فَإِنَّكَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ» . ثُمَّ كَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا، ثُمَّ أدْخَلُوهَا الْقَبْرَ، هُوَ وَالْعَبَّاسُ، وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.

امام طبرانی فرماتے ہیں:

لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ إِلَّا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، تَفَرَّدَ بِهِ: رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ.

اس حدیث کو عاصم احول رضی اللہ عنہ کے طریق سے سوائے امام سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کے کسی نے روایت نہیں کیا، روح بن صلاح اس میں منفرد ہیں۔

ابونعیم احمد بن عبداللہ اصبھانی فرماتے ہیں کہ:

غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَاصِمٍ وَالثَّوْرِيِّ، لَمْ نَكْتُبْهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رَوْحِ بْنِ صَلَاحٍ، تَفَرَّدَ بِهِ.

حضرت عاصم اور سفیان ثوری رضی اللہ عنھما سے یہ حدیث غریب ہے، ہم نے سوائے روح بن صلاح کے طریق کے اور کسی سے یہ حدیث نہیں لکھی۔

علی بن ابی بکر ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْأَوْسَطِ، وَفِيهِ رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ، وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ، وَفِيهِ ضَعْفٌ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ.

اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر اور المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے، اس میں روح بن صلاح ہے اور اس کو امام ابنِ حبان اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہما نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں ضعف ہے اور اس کے باقی رجال صحیح ہیں۔

  1. طبرانی، المعجم الاوسط، 1: 67، رقم: 189، القاهرة، دارالحرمين
  2. ابونعيم، حلية الاولياء، 3: 121، بيروت، دارالکتاب العربی
  3. خيثمی، مجمع الزوائد، 9: 257، بيروت،القاهرة، دارالکتب

ہمارے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے۔ جلیل القدر محدثین کرام کے ہاں کسی عمل کی فضیلت کو ثابت کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے، کسی نیک کام کی ترغیب اور برے کام سے روکنے کے لیے، وعظ و نصیحت کے لیے اور واقعات کو بیان کرنے کے لیے ضعیف حدیث کو قبول کیا جاسکتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس عمل کو سنت نہیں سمجھنا چاہیے، عمل کرتے وقت حدیث کے ثبوت کا اعتقاد نہ ہو بلکہ احتیاط کے طور پر عمل کیا جائے۔ ضعیف حدیث سے کوئی حکم شرعی ثابت نہیں ہوتا۔ اگر کسی روایت میں شدید ضعف نہ ہو اور اصول و کلیاتِ شرع کے خلاف نہ ہو تو مشروط طور پر فضائل میں ضعیف حدیث قبول کی جاسکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 23 November, 2024 05:49:01 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4222/