Fatwa Online

لےپالک سے پردے کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:4207

<p>مفتی صاحب! میرے چند سوالات لے پالک (adopted) یعنی منہ بولے بیٹے یا بیٹی کے بارے میں ہیں:</p> <ol> <li>کیا لے پالک (متبنیٰ) پر، حقیقی اولاد والے ہی احکام لاگو ہوتے ہیں؟</li> <li>کیا لے پالک بیٹے یا بیٹی کی اصل ولدیت کی بجائے، منہ بولے باپ کا نام بطور والد لکھنا یا پکارنا جائز ہے؟</li> <li>کیا غیر محرم بچہ یا بچی لے کر پالنے کی صورت میں بالغ ہونے کے بعد منہ بولی ماں، منہ بولے بیٹے سے اور منہ بولی بیٹی، منہ بولے باپ سے پردہ کرے گی؟</li> <li>کیا لے پالک کو وراثت ملے گی؟</li> </ol>

سوال پوچھنے والے کا نام: عین الحق بغدادی

  • مقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 13 اپریل 2017ء

موضوع:متبنیٰ کے احکام

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَآئَکُمْ اَبْنَآئَکُمْط ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاهِکُمْط وَاﷲُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِی السَّبِيْلَo

اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی اپنی باتیں ہیں اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی (سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔

الاحزاب، 33: 4

لہٰذا منہ بولی اولاد، حقیقی اولاد کی طرح نہیں ہوتی، دونوں کے احکام مختلف ہیں۔

  1. والد کی بجائے منہ بولے باپ کا نام بطور والد لکھنا یا پکارنا فرمانِ باری تعالیٰ کی خلاف ورزی ہے:

اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اﷲِج فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَ هُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّيْنِ وَمَوَالِيْکُمْط

تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔

الاحزاب، 33: 5

اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کے بارے میں سخت وعید سنائی گئی ہے:

عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ يَقُولُ: مَنِ ادَّعَی إِلَی غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ.

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 6: 2485، رقم: 6385، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 1: 80، رقم: 63، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

اور ایک حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أَبِي ذَرٍّg أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ يَقُولُ: لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔

  1. بخاري، الصحيح، 3: 1292، رقم: 3317
  2. مسلم، الصحيح، 1: 79، رقم: 61

لہٰذا اصل والد کا نام لکھا جائے یا پھر پالنے والا اپنا نام بطور سرپرست لکھ سکتا ہے۔

  1. اگر عورت کوئی غیر محرم بچہ لے کر پالے تو اُسے اڑھائی سال کی عمر میں وہ عورت خود یا اس کی بہن یا ماں دودھ پلا دیں تو وہ بچہ رضاعی بیٹا یا بیٹی، بھانجا یا بھانجی، بھائی یا بہن بن کر، اس عورت کے لئے محرم ہو جائے گا۔ اگر لڑکی لے پالک ہو تو اسے شوہر کی بہن یا ماں بھی دودھ پلا دیں تو وہ منہ بولے باپ کے لئے محرم ہو جائے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْکُمْ اُمَّهٰتُکُمْ وَبَنٰـتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰـتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّهٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰ تُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ.

تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں۔

النساء، 4: 23

اور احادیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ فِي بِنْتِ حَمْزَةَ لَا تَحِلُّ لِي يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ هِيَ بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کے بارے میں فرمایا کہ وہ میرے لیے حلال نہیں ہے کیونکہ رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 2: 935، رقم: 2502
  2. مسلم، الصحيح، 2: 1071، رقم: 1447

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ مِنَ الرَّضَاعِ مَا حَرَّمَ مِنَ النَّسَبِ.

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو (رشتہ) نسب سے حرام کیا وہی رضاعت سے حرام فرمایا۔

  1. ترمذي، السنن، 3: 452، رقم: 1146، بیروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 131، رقم: 1096، مصر: مؤسسة قرطبة

لہٰذا نسبی یا رضاعی محرم بچہ پالنے کی صورت میں پردے کا مسئلہ نہ ہو گا لیکن غیر محرم لے پالک بیٹے سے منہ بولی ماں اور غیر محرم لے پالک بیٹی کو منہ بولے باپ سے پردہ کرنا لازم ہو گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُيُوْبِهِنَّص وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِی الْاِرْبَهِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِص وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّط وَتُوْبُوْٓا اِلَی اﷲِ جَمِيْعًا اَيُهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo

اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دو پٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بنائو سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کمسنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنیٰ ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پائوں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جائو۔

النور، 24: 31

  1. لے پالک بچہ اپنے منہ بولے ماں باپ کے ترکہ سے بطور وارث حصہ نہیں پاتا لیکن منہ بولے ماں باپ لے پالک کے لئے ہبہ یا وصیت کر سکتے ہیں۔ یعنی زندگی میں اپنی مرضی جتنا مناسب سمجھیں لے پالک کے نام کر دیں یا پھر ایک تہائی سے وصیت کر دیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 21 November, 2024 09:23:58 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4207/