جواب:
اس مسئلہ کو سمجھنے سے پہلے نفس مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِِِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ وَلَا تُسَافِرَنَّ امْرَأَةٌ إِلَّا وَمَعَهَا مَحْرَمٌ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ اکْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا وَخَرَجَتْ امْرَأَتِي حَاجَّةً قَالَ اذْهَبْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا کہ کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے اور کوئی عورت سفر نہ کرے مگر اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو۔ ایک آدمی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا، یا رسول اللہ! میرا نام اس جہاد میں جانے والوں میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جارہی ہے فرمایا تم جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔
احناف نے جس روایت سے سفر شرعی اخذ کیا ہے، وہ درج ذیل ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ ثَلَاثَةَ أَيَامٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت تین دن کا سفر نہ کرے مگر اپنے محرم کے ساتھ۔
بعض روایات میں دو دن، ایک دن ایک رات، صرف ایک دن، آدھا دن اور مطلقاً سفر کا بھی ذکر آیا ہے۔ لیکن نفس مسئلہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں سفر بہت کٹھن اور پرخطر ہوتے تھے۔ زیادہ تر سفر پیدل یا گھوڑوں اور اونٹوں پر کیا جاتا تھا۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے میں کئی کئی ہفتے اور مہینے صرف ہوتے تھے۔ اور جنگلوں، بیابانوں اور دشوار راستوں سے گزر ہوتا تھا۔ نیز دورانِ سفر چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کا بھی بہت زیادہ خطرہ ہوتا تھا۔ اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفری تکالیف اور خطرات کے باعث عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے منع فرمایا تاکہ اُس کی عفت وعصمت کی حفاظت ہو۔ دوسری طرف ایک حدیث مبارکہ میں یہ بھی ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتمg سے فرمایا: کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا، دیکھا تو نہیں لیکن سنا ضرور ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَإِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيرَةِ حَتَّی تَطُوفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اﷲَ.
اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو تم ضرور دیکھ لوگے کہ ایک بڑھیا حیرہ سے چلے گی اور خانہ کعبہ کا طواف کرے گی لیکن اسے خدا کے سوا کسی دوسرے کا خوف نہیں ہوگا۔
پھر حضرت عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيرَةِ حَتَّی تَطُوفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اﷲَ.
میں نے دیکھ لیا کہ ایک بڑھیا نے حیرہ سے چل کر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اسے خدا کے سوا اور کسی کا خوف نہ تھا۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ امن وامان قائم ہونے پر بڑھیا کا اکیلی سفر کرنے کے بارے میں ہے یعنی اس وقت عفت وعصمت محفوظ ہو چکی تھی۔ اور سفر میں عورت کا محرم ساتھ ہونے کی شرط لگانے کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ وہ دکھ درد میں اس کی دیکھ بھال کرے اور عزت کا خیال رکھے۔ لہٰذا ہمیں اس عِلّت اور پس منظر کو مدِنظر رکھنا چاہیے جس کی بنا عورت کو محرم کے بغیر مطلقاً سفر یا سفر حج پر جانے سے منع کیا گیا تھا۔ آج ذرائع مواصلات بہت ترقی کر گئے ہیں۔ بے شمار سفری سہولیات وآسانیاں میسر آچکی ہیں۔ دوران سفر سکیورٹی وغیرہ کے مسائل بھی نہیں رہے اور حج کی ادائیگی کا باقاعدہ نظام ترقی پا چکا ہے۔ حکومتی سطح پر گروپ تشکیل دیئے جاتے ہیں جو محرم کی طرح ہی خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور خواتین کو اُس طرح کے مسائل وخطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو پرانے وقتوں میں درپیش ہوتے تھے گویا ریاست کی طرف سے ملنے والی سکیورٹی اور سیفٹی محرم بن گئے ہیں کیونکہ حکمِ مَحرم کی حکمت یہی تھی۔ لہٰذا اِن سفری سہولیات کے ساتھ جب عورت عورتوں کے باعتماد گروپ میں جہاں مردوخواتین اور فیملیز اکٹھی ہوں اور خواتین کی کثرت ہو تو یہ اجتماعیت محرم کا کردار ادا کرتی ہے۔ ان حالات میں عورت محرم کے بغیر عام سفر بھی کر سکتی ہے اور حج وعمرہ پر بھی جا سکتی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔