جواب:
نماز باجماعت میں دوسری، تیسری یا چوتھی رکعت میں شامل ہونے والے شخص (یعنی مسبوق) کے لئے سجدہ سہو کے احکام بیان کرتے ہوئے فقہاء کرام نے درج ذیل وضاحتیں بیان کی ہیں:
المسبوق إنما يتابع الإمام في السهو دون السلام بل ينتظر الإمام حتی يسلم فيسجد فيتابعه في سجود السهو لا في سلامه وإن سلم فإن کان عامدا تفسد صلاته وإن کان ساهيا لا تفسد ولا سهو عليه لأنه مقتد وسهو المقتدي باطل فإذا سجد الإمام للسهو يتابعه في السجود ويتابعه في التشهد ولا يسلم إذا سلم الإمام لأن السلام للخروج عن الصلاۃ وقد بقي عليه أرکان الصلاة.
مسبوق (جس مقتدی کی کوئی رکعت رہ گئی) سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے گا، سلام پھیرنے میں نہیں بلکہ امام کا انتظار کرے کہ وہ سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے تو مسبوق بھی سجدہ سہو کرے۔ اور سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے۔ آخری سلام پھیرنے میں نہیں۔ اور اگر سلام پھیرنے میں جان بوجھ کر امام کی متابعت کی تو مقتدی کی نماز فاسد ہو جائے گی یعنی ٹوٹ جائے گی۔ اور اگر بھول کر (متابعت) کی تو (نماز) فاسد نہ ہو گی اور اس پر سجدہ سہو بھی نہیں، کیونکہ وہ مقتدی ہے اور مقتدی کا سہو باطل ہوتا ہے۔ اور جب امام سجدہ سہو کرے تو اس سجدہ میں مسبوق اس کی متابعت کرے اور تشہّد میں بھی امام کی متابعت کرے اور جب امام آخری اسلام پھیرے تو مسبوق سلام نہ پھیرے، اس لئے کہ سلام نماز سے باہر آنے کے لئے ہے اور اس پر ارکانِ نماز باقی ہیں۔
اور امام حصفکی فرماتے ہیں:
(والمسبوق يسجد مع إمامه مطلقا) سواء کان السهو قبل الاقتداء أو بعده (ثم يقضي مافاته) ولو سها فيه سجد ثانيا.
اور مسبوق (جس کی امام سے کوئی رکعت رہ گئی) مطلقاً اپنے امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا خواہ اقتداء سے پہلے امام بھولا یا بعد۔ پھر فوت شدہ (بقیہ) نماز کی قضاء کرے اور اگر بعد والی نماز میں بھول گیا تو دوبارہ سجدہ کرے۔
علاؤ الدين حصکفي، الدر المختار، 2: 82، بيروت: دار الفکر
علامہ ابن عابدین شامی مذکورہ بالا کی شرح میں لکھتے ہیں:
(ولو سها فيه) أي فيما يقضيه بعد فراغ الإمام يسجد ثانيا لأنه منفرد فيه والمنفرد يسجد لسهوه، وإن کان لم يسجد مع الإمام لسهوه ثم سها هو أيضا کفته سجدتان عن السهوين، لأن السجود لايتکرر.
اور اگر امام کے فارغ ہونے کے بعد مقتدی رہ جانے والی نماز قضاء کرتے ہوئے بھول گیا تو دوبارہ اکیلا سجدہ سہو کرے۔ اور اگر امام کے ساتھ اس مسبوق نے سجدہ سہو نہیں کیا تھا، پھر وہ بھی امام کی طرح بھول گیا اسے دو بار سجدہ سہو کی بجائے ایک بار سجدہ سہو کرنا کافی ہے کیونکہ سجدہ (سہو) میں تکرار نہیں ہوتا۔
ابن عابدين شامي، رد المحتار، 2: 82، بيروت: دار الفکر
والمسبوق يسجد لسهوه فيما يقضي ولو سها إمامه ولم يسجد المسبوق معه وسها هو فيما يقضي يکفيه سجدتان.
اور مسبوق جو بعد میں قضاء کرے اور بھول جائے تو سجدہ سہو کرے۔ اور اگر اس کا امام بھول گیا اور مسبوق نے اس کے ساتھ سجدہ نہیں کیا اور باقی رہ جانے والی نماز میں مسبوق بھول گیا تو (بعد میں) اس کا سجدہ دونوں کے لئے کافی ہے یعنی آخر میں ایک بار ہی سجدہ سہو کرنا کافی ہے۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 12۹، بيروت: دارالفکر
مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔