جواب:
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امام کے پیچھے صحتِ اقتداء کے بغیر نماز درست نہیں ہوسکتی۔ صحیح اقتداء کے لئے مقتدی و امام کے مابین ایک مخصوص رابطہ قائم ہوتا ہے۔ یہ رابطہ ظاہری، مادی ا ور جسمانی نہیں بلکہ باطنی، روحانی اور اعتقادی ہوتا ہے جسکا وجود امام اور مقتدی کے درمیان اصولی اعتقاد میں موافقت کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر مقتدی جانتا ہے کہ میرا کوئی عقیدہ امام کے نزدیک شرک جلی یا کفر و جاہلیت ہے تو دونوں کے درمیان اعتقادی موافقت نہ رہی اور اس عدم موافقت کے باعث صحت اقتداء کی بنیاد منہدم ہوگئی۔ ایسی صورت میں اس امام کے پیچھے مقتدی کی نماز صحیح کیسے تصور ہوسکتی ہے؟ صاحبِ ہدایہ نے اسی کے بارے میں اپنی رائے ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ:
لِاَنَّهُ اِعْتَقَدَ اِمَامَهُ عَلَی الْخَطَاءِ.
(اس اقتداء کے عدم صحیح ہونے کہ وجہ ہے کہ) مقتدی نے اپنے امام کے خطاء پر ہونے کا اعتقاد کیا۔
اس سے واضح ہوا کہ نماز درست ہونے کیلئے ضروری ہے کہ مقتدی امام کے خطاء پر ہونے کا معتقد نہ ہو یعنی مطابقتِ اعتقادی ضروری ہے۔ بشرطیکہ مقتدی امام کی خطاء سے باخبر ہو اگر وہ امام کی خطاء سے لا علم ہے تو ایسی صورت میں اس کی نماز ہوجاتی ہے۔
اگر آپ نے امام صاحب سے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے علم غیب ماننے کو کفر و شرک سمجھتے ہیں، انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے استمداد بلکہ توسّل تک شرک اور امام مزاراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام و مزاراتِ اولیائے عظام علیہم الرحمۃ والرضوان کے لئے سفر کرنے بلکہ مزارات کی تعظیم تکریم کو بھی شرک قرار دیتے ہیں، خلفائے راشدین اور امہات المؤمنین یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تبراء کرتے ہیں تو یہ عقائد میں عدم موافقت ہے جس کی وجہ سے صحتِ اقتداء کی بنیاد مفقود ہے۔ اس صورت میں آپ تھوڑی تکلیف برداشت کریں اور کسی دوسری مسجد میں نماز ادا کر لیں، خواہ نمازِ جمعہ ہو یا نمازِ پنجگانہ۔ اگر صورتحال اس کے برعکس ہے تو ان کی اقتداء میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔