Fatwa Online

کیا منہ بولے والد کو نکاح‌ نامے پر والد ظاہر کرنے سے نکاح منعقد ہو جائے گا؟

سوال نمبر:4108

السلام علیکم مفتی صاحب! مجھے میری والدہ نے بچپن میں ہی اپنی بہن کے پاس بھیج دیا جہنوں نے مجھے منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ اب میں اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اور نکاح نامے پر اپنے اصل والدین کے نام لکھوں گا یا گود لیے ہوئے والدین کے؟ اگر گود لینے والے والدین کا نام لکھوں تو یہ جائز ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: شہروز

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 20 جنوری 2017ء

موضوع:متبنیٰ کے احکام

جواب:

اپنے سوال میں آپ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ جس خالہ نے آپ کو گود لیا کیا اس نے آپ کو اڑھائی سال کی عمر کے اندر دودھ بھی پلایا ہے؟ آپ جس خالہ زاد سے نکاح کرنا چاہ رہے ہیں کیا یہ اسی خالہ کی بیٹی ہے جس نے آپ کو گود لیا تھا؟ اگر آپ کو منہ بولا بیٹا بنانے والی خالہ نے اڑھائی سال کی عمر کے اندر دودھ پلایا ہے تو اس کی بیٹی سے آپ کا نکاح حرام ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة.

جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں، رضاعت (دودھ پلانے) سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔

امام مالک، الموطا، رقم: 7881

گود لینے والا یا منہ بولی اولاد (متبنٰی) بنانے والا شخص نہ باپ ہے نہ متبنٰی اس کی اولاد ہے۔ ہر شخص کی ولدیت صرف اور صرف اس کے حقیقی باپ کی طرف ہی منسوب کی جائے گی، کیونکہ قرآن کریم کا یہ واضح حکم ہے:

وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَo ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ.

’’اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی اپنی باتیں ہیں اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی (سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔ تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔‘‘

(الاحزاب، 33: 4،5)

پس متبنٰی (منہ بولے بیٹے/ بیٹی) کے حقیقی والدین ہی اس کے والدین ہیں اور رہیں گے، خواہ پرورش کوئی بھی کرے۔ حقیقی والد کا نام ہی والد کے طور پر لکھا اور بتایا جائے گا۔ اپنی ولدیت کسی دوسرے کی طرف منسوب کرنا ناجائز ہے۔ یہ ممانعت نصِ قرآنی سے بھی ثابت ہے اور اس سے جنم لینے والے خرابیاں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اس لیے ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہی مسنوب کیا جانا چاہیے۔ حدیثِ پاک میں غیرباپ کی طرف منسوب کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعٰی لِغَيْرِ أَبِيْهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا کَفَرَ. وَمَنِ ادَّعٰی مَا لَيْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. وَمَنْ دَعَا رَجُلاً بِالْکُفْرِ أَوْ قَالَ: عَدُوَّ اللّٰهِ وَلَيْسَ کَذٰلِکَ إِلَّا حَارَ عَلَيْهِ.

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی آدمی جو اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے منسوب کرے، دراں حالیکہ وہ (اصل حقیقت) جانتا تھا، تو اس نے کفر کیا۔ جو کسی ایسی چیز کا دعویدار ہوا جو اس کی نہیں تھی تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔ اور جس نے کسی آدمی کو کفر کی نسبت سے بلایا یا یہ کہا کہ تم اللہ کے دشمن ہو اور وہ ایسا نہ ہوا تو یہ اسی کی طرف پلٹے گا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی حدیث کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ:

إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَرْغَبُوْا عَنْ آبَاءِکُمْ. فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيْهِ فَهُوَ کُفْرٌ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آبا سے انحراف نہ کرو۔ جس نے اپنے باپ سے انحراف کیا، وہ کفر ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

سَمِعَ أُذُنَايَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلََّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُوْلُ مَنِ ادَّعٰی أَبًا فِی الْإِسْلَامِ غَيْرَ أَبِيْهِ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيْهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ.

حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ ان کے کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرما رہے تھے: جس نے اسلام میں اپنے آپ کو کسی اور باپ سے منسوب کیا، جبکہ وہ جانتا تھا کہ یہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔

اس لیے جہاں بھی ولدیت ظاہر کرنے کا موقع ہو وہاں اپنے حقیقی والد کا نام ذکر کریں۔

نکاح کے صحیح ہونے کے لیے عاقدین (جن کا نکاح ہو رہا ہے، لڑکا اور لڑکی) کا متعارف ہونا اور پہچانا جانا شرط ہے، خواہ وہ اپنے حقیقی نام و نسب سے معروف ہوں یا پروش کرنے والے شخص کی معرفت سے مشہور ہوں۔ حقیقی باپ کی بجائے نکاح نامے پر متبنیٰ بنانے والے باپ کا نام لکھنے سے شرعاً نکاح منعقد ہو جاتا ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ فریقین اصل صورتحال سے آگاہ ہوں۔ اگر کسی فریق کو دھوکے میں رکھا جائے تو نکاح ’نکاحِ فضولی‘ ہوگا، جس میں دھوکہ کھانے والے فریق کو نکاح کے قبول یا رد کرنے میں اختیار ہوگا۔ وہ چاہے تو اسے اختیار کر لے، چاہے تو علیحدہ ہو جائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 18 December, 2024 06:41:29 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4108/