جواب:
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اور اسلامی نظامِ حیات کا تقاضا ایک پاک و صاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق وعادات کی تہذیب ہے۔ اسلام نے جاہلی رسوم و رواج اور اخلاق وعادات کو مسترد کر کے ایک مہذب معاشرے اور تہذیب کی بنیاد رکھی۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے قیام کے لئے جو پہلی تدبیر اختیار کی گئی وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچانا‘ اور مرد و عورت کے اندر پائے جانے والے فطری میلانات کو اپنی جگہ باقی رکھتے ہوئے انہیں فطری انداز میں ہی محفوظ کرنا ہے۔ اس کے لیے شر و حیاء کو بنیادی درجہ دیا گیا ہے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ، قَالَ: رَسُولُ اﷲِ الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرم وحیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔
عاقل و بالغ خواتین پر غیرمحرم مردوں سے پردہ کرنا شرعاً واجب ہے۔ اس لیے چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کے علاوہ سارے جسم کو چھپانا واجب ہے۔ اگر کوئی عورت شرعی پردہ نہیں کرتی تو وہ گنہگار ہوگی۔ ارشادِ باری تعالیٰ:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔
الْأَحْزَاب، 33: 59
اور سورہ نور میں ارشاد ہے:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.
اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔
النُّوْر، 24: 31
درج بالا ارشاداتِ ربانی میں پردے کے واضح احکام بیان ہورہے ہیں۔ اس لیے کم از کم شرعی پردہ کرنا ہر عورت پر لازم ہے، اگر کوئی نقاب کرتی ہے یا برقعہ اوڑھتی ہے تو یہ بلاشبہ پسندیدہ عمل ہے جس کا وہ خدا کی بارگاہ سے اجر پائے گی۔ اس کے برعکس اگر کوئی عورت شرعی پردہ بھی نہیں کرتی تو وہ خدا کے حضور جواب دہ ہے۔ اس لیے طلباء سمیت ہر غیرمرد سے پردہ کرنا فرض ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
عورت کے لیے کن اعضاء چھپانا واجب ہے؟
عورت کی ملازمت کی جائز صورتیں کون سی ہیں؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔