Fatwa Online

کیا حمل و رضاعت پر عورت کے لیے کوئی اجر و ثواب ہے؟

سوال نمبر:4087

السلام علیکم مفتی صاحب! میرا پہلا سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان عورت کو شادی سے متعلقہ مسائل میں کن پہلوؤں پر راہنمائی درکار ہوتی ہے؟ اگر اس سلسلے میں کوئی تصنیف ہو تو اس کے بارے میں راہنمائی کر دیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا حاملہ عورت کے لیے کوئی اجر و ثواب ہے؟ میں نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھی ہے جس میں حمل، وضع حمل اور رضاعت پر عورت کے لیے اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے، اس میں کتنی حقیقت ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: خدیجہ چوہدری

  • مقام: اٹلی
  • تاریخ اشاعت: 11 اکتوبر 2017ء

موضوع:احکام رضاعت

جواب:

ایک مسلمان لڑکی کے لیے سب سے پہلے اپنے حقوق اور ان کا دائرہ کار جاننا بہت ضروری ہے، ان سے لاعلمی یا ان میں افراط و تفریط ازدواجی زندگی کو مسائل کا شکار کر سکتی ہے۔ جیون ساتھی چننے سمیت شادی کے تمام معاملات میں والدین کو شریکِ مشاورت رکھنا اور شادی کے بعد شوہر اور اُس کے والدین کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آنا، اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ایک لڑکی کی ازدواجی زندگی کے لیے بہت اہم پہلو ہیں۔اس سلسلے میں درج ذیل کتب کا مطالعہ بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے:

بلاشبہ ایک عورت کو حمل سے لیکر رضاعت تک مشکل مراحل سے گزرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ملتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ ج حَمَلَتْهُ اُمُّهُ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّفِصٰلُهُ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

لقمٰن، 31: 14

اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں بچے کی پیدائش اور رضاعت کی تکالیف بیان کرتے ہوئے اپنے شکر کے ساتھ والدین کا بھی شکر ادا کرنے کا حکم فرمایا ہے جو والدین کے لئے انتہائی حوصلہ افزا بات ہے۔ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ کے حق کو والد کے حق پر اسی بنا پر ترجیح دی ہے کہ وہ زیادہ تکالیف برداشت کرتی ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلى اﷲ عليه وسلم فَقَالَ: یَارَسُولَ اﷲِ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي قَالَ أُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أَبُوکَ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ۔ عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ۔ عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ۔ عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہارا والد ہے۔

بخاري، الصحيح، 5: 2227، رقم:5626 ، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة

اس حدیث مبارکہ کی شرح میں علامہ عینی فرماتے ہیں:

أن صعوبة الحمل والوضع والرضاع والتربية تنفرد بها الأم وتشقى بها دون الأب فهذه ثلاث منازل يخلو منها الأب وحديث أبي هريرة يدل على أن طاعة الأم مقدمة وهو حجة على من خالفه وزعم المحاسبي أن تفضيل الأم على الأب في البر والطاعة هو إجماع العلماء وقيل للحسن ما بر الوالدين قال تبذل لهما ما ملكت وتطعيهما فيما أمراك ما لم يكن معصية.

ماں کا حق باپ کے حق پر مقدم ہے،کیونکہ حمل، وضع حمل اور دودھ پلانے کی مشقت اورصعوبت صرف ماں اٹھاتی ہے باپ نہیں اٹھاتا،اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے تین درجہ کے بعد باپ کا ذکر فرمایا، اس پر علماء کا اجماع ہے کہ نیکی کرنےمیں اور اطاعت کرنے میں ماں کا مرتبہ اور حق باپ سے زیادہ ہے۔

عيني، عمدة القاري، 22: 82، بيروت، دار احیا التراث العربي

بچے کی پیدائش کے وقت ہونے والی تکلیف پر عورت کے لیے باعثِ اجر ہے اور دورانِ زچگی فوت ہونے والی عورت کو شہید قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عتیک بن حارث بن عتیک سے روایت ہے کہ ان کے چچا جان حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبد اللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو انہیں بیہوش پایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں زور سے آواز دی لیکن انہوں نے جواب نہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْن کہتے ہوئے فرمایا: اے ابو الربیع! ہم تمہارے بارے میں مغلوب ہوگئے ہیں۔ چنانچہ عورتیں چیخنے اور رونے لگیں اور حضرت ابن عتیک انہیں چپ کراتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں چھوڑو۔ جب واجب ہوجائے اس وقت کوئی رونے والی نہ روئے۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! واجب ہونا کیا ہے؟ فرمایا کہ موت۔ ان کی صاحبزادی نے کہا خدا کی قسم ہم تو یہ امید رکھتے تھے کہ آپ شہید ہوں گے کیونکہ آپ جہاد کی تیاری کرچکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نیت کے مطابق ان کو ثواب دے دیا ہے اور تم شہادت کس چیز کو شمار کرتے ہو؟ عرض کی کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے کو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فِي سَبِیلِ اﷲِ الْمَطْعُونُ شَهِیدٌ وَالْغَرِقُ شَهِیدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ وَصَاحِبُ الْحَرِيقِ شَهِيدٌ وَالَّذِي يَمُوتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيدٌ وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ.

اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے سوا سات قسم کی شہادت اور ہے۔ طاعون سے مرنے والا شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے، ذات الجنب سے مرنے والا شہید ہے، جل کر مر جانے والا شہید ہے، دب کر مرنے والا شہید ہے اور بچے (کی پیدائش) کے باعث مرنے والی عورت شہید ہے۔

أبي داود، السنن، 3: 188، رقم: 3111، دار الفکر

اور ایک روایت میں ہے:

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيکُمْ؟ قَالُوا الَّذِي يُقَاتِلُ فَيُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اﷲِ تَعَالَی فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ الْقَتِيلُ فِي سَبِيلِ اﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی شَهِيدٌ وَالْمَطْعُونُ شَهِيدٌ وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ يَعْنِي النُّفَسَاءَ.

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دریافت کیا: تم لوگ اپنے درمیان شہید کسے سمجھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جو راہ خدا میں لڑے اور مارا جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس طرح تو میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے، اﷲ تعالیٰ کے راستے میں مارا جانے والا بھی شہید ہے، طاعون کی بیماری کی بیماری میں، پیٹ کی بیماری میں اور بچے (کی پیدائش) یعنی نفاس کی حالت میں مرنے والی عورت بھی شہید ہے۔

أحمد بن حنبل، المسند، 5: 315، رقم: 22737، مصر: مؤسسة قرطبة

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 24 November, 2024 09:17:14 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4087/