Fatwa Online

جشن میلاد منانے کے شرعی احکام کیا ہیں؟

سوال نمبر:4060

السلام علیکم! میرا سوال عیدمیلادالنبی کے منانے کے شرعی طریقہ سے متعلق ہے۔ عام طور پر ہم 12 ربیع الاول کے دن جلوس نکالتے ہیں جو شہر کو دوسرے علاقوں سے آنے والے جلوسوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس دوران ہم رسولِ پاک ﷺ کی شان و عظمت کے حوالے سے نعت، قوالیاں اور ترنے پڑھتے ہیں۔ کچھ علماء اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ عید میلادالنبی ﷺ منانے کا درست کا جائز طریقہ کیا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ قوالی کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد توقیر

  • مقام: اترکھنڈ، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 30 دسمبر 2016ء

موضوع:میلاد النبی ﷺ

جواب:

جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِہتمام کرنا یقیناً مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب عمل ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی مول لیں گے۔ محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے علاوہ اپنی اُمت کے دوسرے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلیں شرائط میں سے ہیں۔

بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے: ایک طبقہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے، جب کہ دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلا ما شاء اللہ) ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اُنہوں نے کچھ غیر شرعی اُمور کو داخلِ میلاد کر کے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور تقدس کو پامال کردیا ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن انتہاء پسند رویوں کے بین بین اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔ ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی دانش وری اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے! بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اِسے جائز سمجھتے ہوئے اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے لئے ہر وہ کام سر انجام دینا شرعی طور پر جائز ہے جو خوشی ومسرت کے اظہار کے لئے درست اور رائج الوقت ہو۔ میلاد کی روح پرور تقریبات کے سلسلے میں انتظام وانصرام کرنا، درود وسلام سے مہکی فضاؤں میں جلوس نکالنا، محافل میلاد کا انعقاد کرنا، نعت یا قوالی کی صورت میں آقا علیہ السلام کی شان اقدس بیان کرنا اور عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرچے کرنا سب قابل تحسین، قابل قبول اور پسندیدہ اعمال ہیں۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کو حرام قرار دینا حقائق سے لاعلمی، ضد اور ہٹ دھرمی کے سواء کچھ نہیں ہے۔

کتب سیر واحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے:

فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فَوْقَ الْبُيُوتِ وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِي الطُّرُقِ يُنَادُونَ: يَا مُحَمَّدُ! يَا رَسُولَ اﷲِ! يَا مُحَمَّدُ! يَا رَسُولَ اﷲِ!

مرد اور عورتیں گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب نعرے لگا رہے تھے یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!

  1. مسلم، الصحيح، 4: 231، رقم: 2009، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
  2. أبو يعلی، المسند، 1: 107، رقم: 116، دمشق: دار المأمون للتراث
  3. مروزي، المسند: 129، رقم: 65، بيروت: المکتب لاسلامي

امام رویانی، ابن حبان اور امام حاکم کی روایات کے مطابق اہالیان مدینہ جلوس میں یہ نعرہ لگا رہے تھے:

جَاءَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.

اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔

امام حاکم اس حدیث مبارکہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

هَذَا حَدِيثٌ صَحِحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.

یہ حدیث مبارکہ امام بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے روایت نہیں کیا

  1. روياني، المسند، 1: 138، رقم: 329، القاهرة: مؤسسة قرطبة
  2. ابن حبان، الصحيح، 15: 289، رقم: 68970، بيروت: مؤسسة الرسالة
  3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 14، رقم: 4282، بيروت: دار الکتب العلمية

معصوم بچیاں اور اوس وخزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل وجان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو ان اشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں:

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِيَاتِ الْودَاعِ

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنا
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعٍ

أَيُهَا الْمَبْعُوْتُ فِيْنَا
جِئْتَ بِالْأَمْرِ الْمَطَاعِ

(ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اﷲ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔)

  1. ابن أبي حاتم رازي، الثقات، 1: 131، بيروت: دار الفکر
  2. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 14: 82، مغرب (مراکش): وزات عموم الأوقاف
  3. أبو عبيد اندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4: 1373، بيروت: عالم الکتب

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد پر مذکورہ بالا اشعار کا پڑھا جانا محب طبری، امام بیہقی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، علامہ عینی، امام قسطلانی، امام زرقانی، احمد زینی دحلان کے علاوہ بھی دیگر محدثین، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے۔

مدینہ طیبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت آپ کے استقبال کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوئی مگر آپ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کی خوشی منانا، آپ کے مناقب و محاسن بیان کرنا اور جلسے جلوس کا اہتمام کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے۔ اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف ’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ ملاحظہ کیجیے۔

آپ کے سوال کے دوسرے حصے میں قوالی کی شرعی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک اگر کلام میں توحید و رسالت، احکامِ دین، صحابہ کرام، اہلِ بیت اطہار اور اولیاءاللہ کے مناقب پر مشتمل ہو تو قوالی کرنا جائز ہے۔ بعض آئمہ احناف نے بھی کچھ شرائط کے ساتھ سماع و قوالی کو موسیقی کو مباح قرار دیا گیا ہے۔ وہ اس موسیقی کو حرام قرار دیتے ہیں جس کے اشعار غیراخلاقی مضامین پر مبنی ہوں۔

امام ابن ھمام رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

ایسے اشعار گانا حرام ہے جن کا مضمون حرام باتوں پر مشتمل ہو۔ مثلاً ایسے شعر جن میں کسی زندہ اور معروف آدمی یا عورت کے حسن و جمال کی تعریف کی گئی ہو، شراب کی خوبیاں بیان کر کے شراب نوشی پر ابھارا گیا ہو، جن میں گھر اور چار دیواری کا تجسس پیدا کیا گیا ہو یا کسی ذمی یا مسلمان کی ہجو کی گئی ہو۔ البتہ وہ اشعار جو ان برائیوں سے پاک ہوں اور جن میں باد و بہار، برگ و گل اور آبِ رواں کے حسن و جمال کو بیان کیا گیا ہو، مباح ہیں۔ محض شعر ہونے کی وجہ سے وہ حرام نہیں ہیں۔

ابنِ همام، فتح القدير، 6: 36

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

آلۂ لہو فی نفسہٖ حرام نہیں ہے، بلکہ ارادۂ لہو کی وجہ سے ہے۔ خواہ یہ ارادہ سننے والے کا ہو یا گانا گانے والے کا۔ گویا یہ ایک اضافی چیز ہے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ یہی ساز ایک موقعے پر حرام ہوتا ہے اور دوسرے موقع پر حلال۔ یہ فرق محض نیت کی وجہ سے ہوتا ہے یا ان باتوں کی وجہ سے جو اس کے مقصد سے متعلق ہوں۔

ابنِ عابدين، رد المحتار، 5: 221

علامہ علاؤ الدین کاسانی تنہائی میں گانے کو ناجائز نہیں سمجھتے، مگر اس کے مظاہرے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

جس مغنی کے گرد لوگ گانے سے محظوظ ہونے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں ۔ وہ عادل نہیں ہے خواہ شراب نہ پیتا ہو، کیوں کہ وہ بدکاروں کا سرغنہ ہے ۔ البتہ اگر وہی تنہائی میں وحشت دور کرنے کے لیے گا لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ سماع سے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے ۔ البتہ فاسقانہ انداز میں اس سے حظ اٹھانے کو حلال نہیں کہا جا سکتا۔

کاسانی، بدائع الصنائع، 6: 269

اس موضوع پر تفصیلی مضمون ماہنامہ منہاج القرآن میں تین اقساط میں شائع ہوچکا ہے، مطالعہ کے لیےدرج ذیل لنکس ملاحظہ کریں:

  1. سر، ساز اور وجد و رقص (حصہ اول)
  2. سر، ساز اور وجد و رقص (حصہ دوم)
  3. سر، ساز اور وجد و رقص (حصہ سوم)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 03:14:38 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4060/