جواب:
ہمارے علم میں ایسی کوئی حدیثِ مبارکہ نہیں جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج و عمرہ کے علاوہ سعودی عرب جانے سے منع فرمایا ہو۔ البتہ ایک حدیثِ مبارکہ جو صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إلَّا إلَي ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُوْلِ صلي الله عليه وآله وسلم، وَمَسْجِدِ الْأَقْصٰي.
’’مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ کے سوا کسی (اور مسجد ) کی طرف (زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) رَختِ سفر نہ باندھا جائے۔‘‘
اسی مفہوم کی ایک حدیث سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جس میں مسجدِ اقصیٰ کی جگہ مسجدِ خیف کا ذکر ہوا ہے۔ اسی حدیث کو بنیاد بنا کر بعض نادان لوگ معاش یا دیگر مقاصد کے لیے سعودی عرب جانے کو ممنوع اور سیدالعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اَقدس میں حاضری کی نیت سے جانے کو (معاذ اﷲ) شرک قرار دیتے ہیں۔ ایسا عقیدہ بے دینی اور جہالت پر مبنی ہے، جس کی وجہ حدیث کی غلط تعبیر ہے۔ آئمہ اہلِ سنت نے بڑی وضاحت کے ساتھ حدیثِ پاک کی تعبیر و تشریح کی ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیثِ پاک کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأجابوا عن الحديث بأجوبة، منها : أن المراد أن الفضيلة التامة في شد الرحال إلي هذه المساجد بخلاف غيره فإنه جائز. ومنها أن المراد أنه لا تشد الرحال إلي مسجد من المساجد للصلاة فيه غير هذه.
آئمہ نے اس حدیث کے کئی جواب دیئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں فضیلت سے مراد ان مساجد ثلاثہ کی طرف شدِّ رحال کی فضیلت تامہ ہے جبکہ کسی دوسری جگہ کی طرف محض سفر جائز ہے، دوسرا جواب یہ کہ اس سے مراد ہے ان تین مساجد کے علاوہ دیگر مساجد کی طرف زیادہ حصولِ ثواب کی خاطر، نماز پڑھنے کے لیے سفر نہ کیا جائے۔
سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 102
حضرت ملا علی قاری اس حدیثِ پاک کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الرّحال، جمع رحلة، وهو کور البعير. والمراد نفي فضيلة شدّها ومربطها إلا ثلاثة مساجد، قيل: نفي معناه نهي. أي لا تشدّ الرّحال إلي غيرها، لأن ما سوي الثلاثة متساو في الرتبة غير متفاوت في الفضيلة.
اس حدیث مبارکہ میں رِحال، رِحْلَۃ کی جمع ہے جس کا معنی اونٹ پر سامان باندھنا ہے، اور اس سے مراد مساجدِ ثلاثہ کے علاوہ دوسری مساجد کی طرف سفر کی فضیلت کی نفی ہے اور بعض نے یہ کہا ہے کہ یہاں نفی بمعنی نہی ہے یعنی (زیادہ حصول ثواب کے لیے) ان مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر اختیار نہ کیا جائے کیونکہ ان مساجد کے علاوہ تمام مساجد درجۂِ ثواب میں برابر ہیں۔ باعتبارِ فضیلت کسی میں کوئی کمی بیشی نہیں، اس لئے ان کی طرف (زیادہ ثواب کے لیے نماز کی غرض سے) سفر بے فائدہ ہے۔
علي القاري، مرقاة المفاتيح، 2 : 190
اجل آئمہ و شارحینِ حدیث کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ حدیث کا ’لا تشد الرحال‘ صرف ثواب کی نیت سے دیگر مساجد کی طرف سفر کرنے کو مستلزم ہے۔ دیگر مقاصد کے لیے سفر جائز ہے، کیونکہ اگر ممانعتِ سفر مان لی جائے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دنیا میں کسی بھی جگہ حتیٰ کہ نیک مقاصد کے لیے بھی سفر حرام ہے تو اس صورت میں انسانی زندگی اجیرن ہو جائے گی اور انسان عضوِ معطل بن کر رہ جائے گا۔ وہ اپنی آبادی سے باہر کبھی بھی نہ جا سکے گا، نہ حصولِ علم، نہ تجارت، نہ عیادت و ملاقات اور نہ اشاعتِ دین کے لیے۔ یہاں تک کہ ان تین مساجد کی فضیلتِ عامہ کے تعین کے بغیر کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھنا بھی اس قول کے مطابق ممنوع ٹھہر جائے گا۔ حالانکہ محسن انسانیت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود سفر فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام اشاعت دین کے لئے دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچے۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حصولِ علم کے لئے دور دراز مقامات تک سفر کی ترغیب دی۔ معلوم ہوا کہ حدیث کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ دنیا میں کہیں بھی سفر نہ کیا جائے بلکہ اس حدیث کا صحیح معنی و مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں جتنی مسجدیں ہیں ان میں سے صرف یہ تین مساجد ایسی ہیں کہ جنہیں فضیلت تامہ حاصل ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
حدیثِ مبارکہ لَا تُشَدُّ الرِّحَال کا صحیح مفہوم اور معترضین کے اشکالات کا جواب
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔