جواب:
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو سلام کہنا، مصافحہ و معانقہ کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ پانچ وقت مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو ملیں، حال و احوال لیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں تاکہ اخوت کا رشتہ مضبوط تر ہو جائے۔ لیکن نماز کا سلام پھیرنے کے فوراً بعد مصافحہ و معانقہ درست نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے کہ آپ نماز کے بعد اذکار اور دعا کا اہتمام فرماتے تھے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ مَنْ سَبَّحَ اﷲَ فِي دُبُرِ کُلِّ صَلَاةٍ ثَـلَاثًا وَثَـلَاثِينَ وَحَمِدَ اﷲَ ثَـلَاثًا وَثَـلَاثِينَ وَکَبَّرَ اﷲَ ثَـلَاثًا وَثَـلَاثِينَ فَتْلِکَ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ وَقَالَ تَمَامَ الْمِائَةِ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ غُفِرَتْ خَطَايَاهُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ہر نماز کے بعد تینتیس بار سبحان اللہ، تینتیس بار الحمدﷲ اور تینتیس بار اللہ اکبر کہا تو یہ ننانوے کلمات ہو گئے اور سو کا عدد پور اکرنے کے لیے کہا لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے، خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘
مسلم، الصحيح، 1: 418، رقم: 597، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یوں کہا کرتے تھے اور بخاری کی روایت میں ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یوں کہا کرتے تھے اور مسلم کی روایت میں ہے: جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے اور سلام پھیرتے تو یوں فرماتے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ. اللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ.
’’نہیں ہے کوئی معبود مگر اللہ تعالیٰ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ! جسے تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی دولت مند کو تیرے مقابلے پر دولت نفع نہیں دے گی۔‘‘
ایک روایت میں حضرت (عبد اﷲ) بن عباس ضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام ابو معبد نے بیان کیا ہے کہ حضرت (عبد اﷲ) بن عباس ضی اللہ عنہما نے انہیں بتایا:
أَنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ بِالذِّکْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ الْمَکْتُوبَةِ کَانَ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ضی الله عنهما: کُنْتُ أَعْلَمُ إِذَا انْصَرَفُوا بِذَلِکَ إِذَا سَمِعْتُهُ.
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلند آواز سے ذکر (یعنی ذکر بالجہر) کیا جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس ضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں لوگوں کے (نماز سے) فارغ ہونے کو اسی سے جان لیتا جب میں اس (بلند آواز سے) ذکر سنتا۔‘‘
ایک اور روایت میں حضرت (عبد اﷲ) بن عباس ضی اللہ عنہما نے فرمایا:
کُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلَاةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِالتَّکْبِيْرِ.
’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے ختم ہو جانے کو تکبیر (یعنی بلند آواز سے اَﷲُ أَکْبَر کا وِرد کرنے) سے جان لیا کرتا تھا۔‘‘
فرض نماز کے بعد دعا کی قبولیت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اﷲِ، أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرِ وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوبَاتِ.
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا گیا: کس وقت کی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رات کے آخری حصہ میں (کی گئی دعا) اور فرض نمازوں کے بعد (کی گئی دعا جلد مقبول ہوتی ہے)۔‘‘
اس لیے نماز کا سلام پھیرنے کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور دعا کرنا اور دعا کے بعد ہی سلام، مصافحہ یا معانقہ کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ نماز کے سلام پھیرنے کے فوراً بعد دعا مانگے بغیر ہی مصافحہ کر کے بکھر جانا درست نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔