Fatwa Online

تدفینِ میت کا شرعی طریقہ کیا ہے؟

سوال نمبر:4000

السلام علیکم! میت کو قبر میں اتارتے وقت اس کا سر پہلے اتاریں گے یا پاؤں پہلے قبر میں داخل کریں گے؟ تدفین میت کا مکمل طریقہ بیان فرما دیں۔ جزاک اللہ

سوال پوچھنے والے کا نام: محمود امجد عاربی

  • مقام: ملتان، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 27 ستمبر 2016ء

موضوع:احکام میت

جواب:

احادیث مبارکہ سے قبر کی دو اقسام ملتی ہیں: ایک ’لحد‘ (بغلی) جو تقریباً دو فٹ تک زمین کو سیدھا نیچے کھود کر پھر گڑھے میں قبلہ کی طرف مزید اضافہ کیا جاتا ہے۔ قبر کی یہ قسم پتھریلی اور سخت زمینوں میں بنائی جاتی ہے۔ اور دوسری قسم’ شق‘ (شگاف) بنانا بھی جائز ہے۔ یہ سیدھا (مستطیل) گڑھا ہوتا ہے جو اکثر سامی (زرخیز) زمینوں میں بنائی جاتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم اللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا.

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہمارے لیے لحد ہے اور ہمارے سوا دوسرے لوگوں کے لیے شق ہے۔‘‘

  1. أبي داؤد، السنن، 3: 213، رقم: 3208، دار الفکر
  2. ترمذي، السنن، 3: 363، رقم: 1045، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
  3. نسائي، السنن، 1: 648، رقم: 2136، بيروت: دار الکتب العلمية
  4. ابن ماجه، السنن، 1: 496، رقم: 1514، بيروت: دار الفکر

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے لئے لحد بنانے کی وصیت کی تاکہ دفن ہونے میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت قائم رہے:

عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي هَلَکَ فِيهِ الْحَدُوا لِي لَحْدًا وَانْصِبُوا عَلَيَّ اللَّبِنَ نَصْبًا کَمَا صُنِعَ بِرَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے مرض الموت میں کہا میرے لیے لحد بنانا اور اس پر کچی اینٹیں لگانا، جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر بنائی گئی تھی۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 2: 665، رقم: 966، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 184، رقم: 1601، مصر: مؤسسة قرطبة
  3. ابن ماجه، السنن، 1: 496، رقم: 1556

صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے لحد تیار کی گئی اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دفن کیا گیا:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ بِالْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَلْحَدُ وَآخَرُ يَضْرَحُ فَقَالُوا نَسْتَخِيرُ رَبَّنَا وَنَبْعَثُ إِلَيْهِمَا فَأَيُّهُمَا سُبِقَ تَرَکْنَاهُ فَأُرْسِلَ إِلَيْهِمَا فَسَبَقَ صَاحِبُ اللَّحْدِ فَلَحَدُوا لِلنَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا تو مدینہ میں ایک شخص لحد کھودتا تھا اور دوسرا سیدھی قبر۔ صحابہ نے کہا ہم خدا سے استخارہ کرتے ہیں اور دونوں کو بلوا بھیجتے ہیں جو پہلے آ جائے گا اسی کے طریقہ پر عمل کیا جائے گا تو لحد کھودنے والا پہلے آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے لحد کھودی گئی۔‘‘

(یہ حدیث مبارکہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے بھی نقل کی ہے لیکن یہ الفاظ سنن ابن ماجہ سے لئے گئے ہیں)

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 139، رقم: 12438
  2. ابن ماجه، السنن، 1: 496، رقم: 1557

یعنی مدینہ شریف میں دونوں طرح کی قبریں بنائی جاتیں تھیں لیکن حضور نے لحد کو اپنی طرف منسوب کیا اور پھر صحابہ کرام نے بھی لحد کو ترجیح دی۔ لیکن قبر کی کسی قسم کو امت کے لئے لازم قرار نہیں دیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ سخت اور نرم زمین کے مطابق جو قبر مناسب رہے وہی بنا سکتے ہیں۔ شرعی طور پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

میت کو قبر میں اتارنے کے طریقے:

مذکورہ بالا دونوں قسم کی قبروں میں میت کو اتارنے کے لئے تین طریقے احادیث مبارکہ سے ملتے ہیں:

  1. پہلا طریقہ چارپائی قبر کے برابر رکھ کر میت کو قبلہ کی جانب سے قبر میں داخل کرنا ہے جیسا کہ درج ذیل روایات سے ثابت ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم دَخَلَ قَبْرًا لَيْلًا فَأُسْرِجَ لَهُ سِرَاجٌ فَأَخَذَهُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ وَقَالَ رَحِمَکَ اﷲُ إِنْ کُنْتَ لَأَوَّاهًا تَلَّاءً لِلْقُرْآنِ وَکَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا.

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت ایک قبر میں داخل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چراغ جلایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میت کو قبلہ کی طرف سے پکڑ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے تو بہت رونے والا اور کثرت سے تلاوت قرآن کرنے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (کے جنازہ) پر چار تکبیریں پڑھیں۔‘‘

فِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنهما وَهُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَکْبَرُ مِنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا وَقَالُوا يُدْخَلُ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ و قَالَ بَعْضُهُمْ يُسَلُّ سَلًّا وَرَخَّصَ أَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ.

اس باب میں حضرت جابر اور یزید بن ثابت (حضرت زید بن ثابت کے بڑے بھائی) رضی اللہ عنہما سے بھی روایات مذکور ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما حسن ہے، بعض علماء اسی طرف گئے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میت کو قبلہ کی طرف سے داخل کیا جائے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں سر کی طرف سے کھینچا جائے، اکثر علماء نے رات کو دفنانے کی اجازت دی ہے۔

ترمذي، السنن، 3: 372، رقم: 1057

حضرت علامہ علی بن سلطان محمد القاری حنفی رحمہ اﷲ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

احتج أبو حنيفة رضي الله عنه بهذا الحديث علی أن الميت يوضع في عرض القبر في جانب القبلة بحيث يکون مؤخر الجنازة إلی مؤخر القبر ورأسه إلی رأسه ثم يدخل الميت القبر وقال الشافعي رضي الله عنه والأکثرون يسل من قبل الرأس بأن يوضع رأس الجنازة علی مؤخر القبر ثم يدخل الميت القبر للاجماع بعد ذلک عليه قلت لعله أراد بالإجماع اتفاق حفاري بلده أو أهل مذهبه.

امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اس پر حجت پکڑی ہے کہ میت کو قبر کے عرض میں قبلہ کی جانب رکھا جائے، اس طرح کہ چارپائی کا پچھلا حصہ قبر کے پچھلے حصہ کی طرف ہو پھر میت کو قبر میں داخل کیا جائے۔ امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سر کی جانب سے رکھتے ہیںچونکہ میت کا سر قبر کے آخر میں ہے، پھر میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے اس پر اجماع ہے۔ میں کہتا ہوں شاید ان کے اجماع سے مراد کسی ایک شہر کے علماء یا کسی ایک مذہب کے علماء ہیں۔

ملا علي القاري، مرقاة المفاتيح، 4: 163-164، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية

سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أُخِذَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ وَاسْتُقْبِلَ اسْتِقْبَالًا۔

’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک کو قبلہ کی جانب سے لیا گیا اور (قبر میں) چہرہ مبارک قبلہ کی طرف کیا گیا۔‘‘

ابن ماجه، السنن، 1: 495، رقم: 1552

  1. دوسرا طریقہ یہ ملتا ہے کہ میت کی چارپائی کو قبر کی پائنتی کی جانب اس طرح رکھا جائے کہ میت کا سر قبر کے آخری حصہ پر ہو اور پھر چارپائی سے اٹھا کر میت کے سر کو قبر کی طرف آگے بڑھایا جائے جب میت قبر کے اوپر برابر آ جائے تو پھر نیچے اتار دیا جائے۔ احادیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ سُلَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ قِبَلِ رَأسِهِ.

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سر کی طرف سے قبر انور میں اتارا گیا۔‘‘

  1. الشافعي، المسند، 1: 360، دار الکتب العلمية بيروت
  2. بيهقي، السنن الکبری، 4: 54، رقم: 6846، مکة المکرمة: مکتبة دار الباز

اس حدیث مبارکہ کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اﷲ نے ابن ہمام رحمہ اﷲ کا موقف نقل کیا ہے:

قال ابن الهمام هو بأن يوضع السرير في مؤخر القبر حتی يکون رأس الميت بإزاء موضع قدميه من القبر ثم يدخل رأس الميت القبر ويسل کذلک أو تکون رجلاه موضع رأسه ثم يدخل رجلاه ويسل کذلک.

ابن ہمام کہتے ہیں چار پائی قبر کے انتہائی آخری حصے کے پاس رکھی جاتی ہے یہاں تک کہ میت کا سر قبر سے قدموں والی جگہ کے برابر ہوتا ہے پھر میت کا سر قبر میں داخل کیا جاتا ہے یا اس کے پاؤں سر کی جگہ ہوتے ہیں پھر اُس کے پاؤں کو داخل کیا جاتا ہے۔

ملا علي القاري، مرقاة المفاتيح، 4: 163

ایک اور روایت میں ہے:

عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضی الله عنه قَالَ: سَلَّ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سَعْدًا وَرَشَّ عَلَی قَبْرِهِ مَاءً.

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو سر کی جانب سے قبر میں اتارا اور ان کی قبر پر پانی چھڑکا۔‘‘

ابن ماجه، السنن، 1: 495، رقم: 1551

  1. تیسرے طریقے میں میت کی چارپائی کو قبر کے سرانے اس طرح رکھا جائے کہ میت کے پاؤں قبر کی جانب ہوں اور میت کو چارپائی سے اٹھا کر پاؤں اس طرح آگے بڑھائے جائیں کہ جب میت قبر کے برابر ہو جائے تو پھر نیچے اتار دیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ رضی الله عنه قَالَ: أَوْصَی الْحَارِثُ رضی الله عنه أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ عَبْدُ اﷲِ بْنُ يَزِیدَ رضی الله عنه فَصَلَّی عَلَيْهِ ثُمَّ أَدْخَلَهُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْ الْقَبْرِ وَقَالَ هَذَا مِنْ السُّنَّةِ.

’’حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن اسحق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ ان کے جنازے کی نماز عبد اللہ بن یزید رضی اللہ عنہ پڑھائیں۔ پس انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر پیروں کی جانب سے ان کو قبر میں داخل کیا اور فرمایا کہ سنت یہی ہے۔‘‘

أبي داؤد، السنن، 3: 213، رقم: 3211

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے دونوں طرح کی قبروں میں میت کو اتارنے کے لئے تین اطراف سے لیا جا سکتا ہے۔ شرعی طور پر کسی ایک طرف سے اتارنے کی پابندی نہیں ہے کیونکہ یہ ضرورت کے پیش نظر ہے جس سمت سے مناسب ہو میت کو قبر میں اتارنا جائز ہے۔ لیکن تینوں اطراف سے قبر میں اتارنے کے لئے ایک شخص قبر میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر میت کو پہلے قبر کے اوپر متوازی کر کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے اور میت کے چہرے کو قبلہ رخ کر دیا جاتا ہے نہ کہ اس کے پاؤں یا سر کو پہلے قبر میں داخل کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں سر یا پاؤں پہلے قبر میں داخل کرنے کے سوال کا عملاً کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

لیکن ہماری تحقیق کے مطابق بعض علاقوں میں سرنگ کی طرز پر قبریں بھی بنائی جاتی ہیں جن میں میت کو اوپر سے اتارا نہیں جاتا بلکہ قبر کی ایک جانب سے لمبائی کے رخ داخل کیا جاتا ہے۔ جبکہ احادیث مبارکہ سے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی مگر مذکورہ بالا دو طرح کی قبروں کے علاوہ کسی اور طرز پر قبر بنانے سے منع بھی نہیں کیا گیا کیونکہ علاقہ اور زمین کی سختی و نرمی کے مطابق قبر کھودی جاتی ہے۔ لہٰذا سرنگ کی طرز پر بنائی گئی قبر میں پہلے پاؤں یا سر داخل کرنے کا سوال پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ جس ضرورت کے تحت اس طرز پر قبر بنائی گئی اُسی کے پیش نظر جس جانب سے میت کو قبر میں داخل کرنے کا راستہ مناسب ہو اُسی کے مطابق میت کا سر یا پاؤں قبر میں پہلے داخل کر سکتے ہیں کوئی پابندی نہیں ہے لیکن مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کی رو سے افضل لحد ہے، اگر لحد ممکن نہ ہو تو شق بنائی جائے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک میں نیچے چادر بچھائی گئی۔ احادیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: جُعِلَ فِي قَبْرِ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَطِیفَۃٌ حَمْرَائُ۔

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر میں سرخ چادر رکھی گئی تھی۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 2: 665، رقم: 967
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 228، رقم: 2021

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ امام ترمذی، امام نسائی، بیہقی، طبرانی، ابن ابی شیبہ، طیالسی اور دیگر محدثین کرام نے بھی نقل کی ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ فَرْقَدٍ قَال سَمِعْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ الَّذِي أَلْحَدَ قَبْرَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَبُو طَلْحَةَ رضي الله عنه وَالَّذِي أَلْقَی الْقَطِيفَةَ تَحْتَهُ شُقْرَانُ رضي الله عنه مَوْلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ جَعْفَرٌ وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اﷲِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ رضي الله عنه قَال سَمِعْتُ شُقْرَانَ رضي الله عنه يَقُولُ أَنَا وَاﷲِ طَرَحْتُ الْقَطِيفَةَ تَحْتَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْقَبْرِ.

’’حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے لحد میں اتارا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نیچے چادر بچھائی۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے ابن ابی رافع رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے حضرت شقران رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے فرمایا: قسم بخدا! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (جسد اطہر کے) نیچے چادر بچھائی۔‘‘

ترمذي، السنن، 3: 365، رقم: 1047

لہٰذا قبر میں چادر یا چٹائی بچھانا جائز ہے۔

میت کو قبر میں اتارتے وقت کی دعائیں:

میت کو قبر میں اتارتے وقت کون سی دعائیں پڑھی جائیں درج ذیل احادیث سے ثابت ہیں:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا أُدْخِلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ وَقَالَ أَبُو خَالِدٍ رضی الله عنه مَرَّةً إِذَا وُضِعَ الْمَيِّتُ فِي لَحْدِهِ قَالَ مَرَّةً: بِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ وَعَلَی مِلَّةِ رَسُولِ اﷲِ وَقَالَ مَرَّةً: بِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ وَعَلَی سُنَّةِ رَسُولِ اﷲِ.

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے میت کو قبر میں داخل کرتے وقت اور ابوخالد کی روایت میں میت کو قبر میں رکھتے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی فرماتے ’بِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ وَعَلَی مِلَّةِ رَسُولِ اﷲِ‘ اور بعض اوقات ’بِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ وَعَلَی سُنَّةِ رَسُولِ اﷲِ‘ فرماتے۔‘‘

  1. ترمذي، السنن، 3: 364، رقم: 1046
  2. ابن ماجه، السنن، 1: 494، رقم: 1550

ایک اور روایت میں ہے:

عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَبِ رضی الله عنه قَالَ: حَضَرْتُ ابْنَ عُمَرَ رضی الله عنهما فِي جِنَازَةٍ فَلَمَّا وَضَعَهَا فِي اللَّحْدِ قَالَ: بِسْمِ اﷲِ وَفِي سَبِيلِ اﷲِ وَعَلَی مِلَّةِ رَسُولِ اﷲِ فَلَمَّا أُخِذَ فِي تَسْوِيَةِ اللَّبِنِ عَلَی اللَّحْدِ قَالَ: اللّٰهُمَّ أَجِرْهَا مِنْ الشَّيْطَانِ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ اللّٰهُمَّ جَافِ الْأَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهَا وَصَعِّدْ رُوحَهَا وَلَقِّهَا مِنْکَ رِضْوَانًا قُلْتُ يَا ابْنَ عُمَرَ أَشَيْئٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اﷲِ أَمْ قُلْتَهُ بِرَأْيِکَ قَالَ إِنِّي إِذًا لَقَادِرٌ عَلَی الْقَوْلِ بَلْ شَيْئٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’حضرت سعید ابن المسیب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا، جب آپ رضی اللہ عنہ نے اسے قبر میں رکھا تو فرمایا: بِسْمِ اﷲِ وَفِي سَبِيلِ اﷲِ وَعَلَی مِلَّةِ رَسُولِ اﷲِ جب مٹی برابر کرنی شروع کی تو فرمانے لگے: اللّٰهُمَّ أَجِرْهَا مِنْ الشَّيْطَانِ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ اللّٰهُمَّ جَافِ الْأَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهَا وَصَعِّدْ رُوحَهَا وَلَقِّهَا مِنْکَ رِضْوَانًا میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے یا آپ نے یہ بات اپنی طرف سے کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا: کیا میں خود اپنی جانب سے کچھ کہہ سکتا ہوں بلکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔‘‘

  1. ابن ماجه، السنن، 1: 495، رقم: 1553
  2. بيهقي، السنن الکبری، 4: 55، رقم: 6853

اس طرح میت کو قبر میں اتارنے کے بعد جس قدر ممکن ہو اس کا چہرہ قبلہ رخ کر دیا جاتا ہے اور لحد کو ایک طرف سے جبکہ شق کو اوپر سے بند کر کے مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ اور قبر کو زمین سے تقریباً ایک پالشت بلند رکھ کر اوپر پانی چھڑک دیا جاتا ہے۔ پھر تلاوت قرآن، مسنون دعائیں اور تلقین میت کرنا بھی جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 10:49:01 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4000/