جواب:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : إذَا طَلَّقَ الْبِكْرَ وَاحِدَةً فَقَدْ بَتَّهَا ، وَإِذَا طَلَّقَهَا ثَلاَثًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے باکرہ کو ایک طلاق دی تو وہ بائنہ ہو جائے گی اور اگر اسے دخول سے پہلے تین طلاقیں دیدے تو وہ اس کے لئے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے۔
ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 66، رقم:17853، الرياض: المكتبة الرشد
غیرمدخولہ کی طلاق کے بارے فقہائے احناف کا مؤقف ہے:
فَإِنْ فَرَّقَ الطَّلَاقَ بَانَتْ بِالْأُولَى وَلَمْ تَقَعْ الثَّانِيَةُ وَالثَّالِثَةُ) وَذَلِكَ مِثْلُ أَنْ يَقُولَ: أَنْتِ طَالِقٌ طَالِقٌ طَالِقٌ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدَةٍ إيقَاعٌ عَلَى حِدَةٍ إذَا لَمْ يَذْكُرْ فِي آخِرِ كَلَامِهِ مَا يُغَيِّرُ صَدْرَهُ حَتَّى يَتَوَقَّفَ عَلَيْهِ فَتَقَعُ الْأُولَى فِي الْحَالِ فَتُصَادِفُهَا الثَّانِيَةُ وَهِيَ مُبَانَةٌ.
اگر شوہر نے غیر مدخولہ بیوی کو الگ الگ تین طلاقیں دیں تو پہلی طلاق سے بائن ہو جائے گی، دوسری اور تیسری واقع نہیں ہوں گی۔ مثلاً شوہر یوں کہے کہ تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق، ان میں سے ہر ایک الگ الگ طلاق واقع کر رہا ہے بشرطیکہ شوہر نے اپنے آخری کلام میں کوئی ایسی چیز نہ ذکر کی ہو جو صدر کلام کو بدل دے حتیٰ کہ وقوع اسی پر موقوف ہو جائے، چنانچہ پہلی طلاق فوراً واقع ہوجائے گی اب دوسری طلاق اس حال میں دی کہ نکاح ٹوٹ چکا تھا۔
رخصتی، دخول یا خلوتِ صحیحہ (میاں بیوی کی ایسی ملاقات جس میں انہیں مباشرت کا مکمل موقعہ میسر ہو اور کوئی امر مانع نہ ہو) سے پہلے طلاق اور نئے نکاح کی دو صورتیں ہیں:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔