Fatwa Online

ملک میں غیرسودی بینکنگ کی عدم موجودگی کی صورت میں‌ بینکوں‌ سے لین دین کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:3900

السلام علیکم! ہندستان میں بینک سرکاری اور غیرمسلم لوگ چلاتے ہیں۔ ان بینک سے ملنے والا سود یا زائد رقم لینا جائز ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: سید رفیق

  • مقام: ہندستان
  • تاریخ اشاعت: 21 اپریل 2016ء

موضوع:سود

جواب:
سود کسی ملک میں جائز نہیں۔ اس کی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: کیا دارالکفر میں سود لینا اور دینا جائز ہے؟

بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں غیرسودی لین دین کی سہولت موجود نہیں۔ ایسے ممالک میں مسلمان سودی بینکوں میں ہی لین دین پر مجبور ہیں۔ مگر یہ ایک استثنائی صورت ہے۔ خنزیر، مردار اور شراب حرام ہیں مگر اِستثنائی صورت میں اسلام کا قانون مختلف ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْه.

پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں۔

البقرة، 2: 173

درج بالا آیت مبارکہ میں حلال کی عدم دستیابی کی صورت میں حرام کے استعمال کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اس استثنائی حکم سے حرام حلال نہیں ہو جاتا، مگر اس کے استعمال کی اجازت مل جاتی ہے۔ اس لیے غیرسودی لین دین کی سہولت نہ رکھنے والے ممالک میں سود حلال نہیں ہو جاتا، بلکہ اِضطراری حالت ہونے سے کچھ مستثنیات مل جاتی ہیں۔ اگر آپ کے ملک میں غیرسودی بینک موجود نہیں تو آپ زائد رقم لے سکتے ہیں۔ جب بلا سود نظام مہیا ہو جائے تب یہ استثنائی جواز بھی ختم ہو جائے گا۔ جواب کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

دارالکفر میں سودی رقوم کا مصرف کیا ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 24 November, 2024 09:13:42 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3900/