Fatwa Online

تعلیمِ‌ نسواں‌ کا شرعی حکم کیا ہے؟

سوال نمبر:3891

السلام علیکم! تعلیمِ‌ نسواں‌ کا شرعی حکم کیا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: غلام عوم شیرانی

  • مقام: بہاولپور
  • تاریخ اشاعت: 03 مئی 2016ء

موضوع:حقوق نسواں

جواب:

اسلام میں تعلیم نسواں ضروری ہے جس کی وضاحت پیش خدمت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا يَتَذَکَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِo

’’فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔ بس نصیحت تو عقلمند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔ــ‘‘

الزمر، 39: 9

اس آیت مبارکہ میں اہل علم کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے، عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی فوقیت علم والے کو ہی ہے وہ چاہے مرد ہو یا عورت اس کی کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ اور احادیث مبارکہ میں عورتوں کو تعلیم دینے کی فضیلت بیان کی گئی ہے جو درج ذیل ہیں:

عَنْ عَبْدِ اﷲِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِصلیٰ الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: مَنْ کَانَتْ لَهُ ابْنَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيْمَهَا، وَأَوْسَعَ عَلَيْهَا مِنْ نِعَمِ اﷲِ الَّتِي أَسْبَغَ عَلَيْهِ، کَانَتْ لَهُ مَنَعَةً وَسُتْرَةً مِنَ النَّارِ.

’’حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس کی بیٹی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پر ان انعامات کو وسیع کیا جو کہ اﷲ نے اس کو دیئے ہیں تو وہ بیٹی اس کے لئے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی۔‘‘

  1. طبراني، المعجم الکبير، 10: 197، رقم: 10447، الموصل: مکتبة الزهراء
  2. هيثمي، مجمع الزوائد، 8: 158، بيروت، القاهرة: دار الکتاب

حضرت عطاء بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں یا عطاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر گواہی دیتا ہوں۔

أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعْ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَجَعَلَتْ الْمَرْأَهُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ وَبِلَالٌ يْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهِ.

حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف فرما ہوئے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیال فرمایا کہ عورتوں نے خطبہ نہیں سنا۔ لہٰذا انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کا حکم دیا تو کوئی بالی اور کوئی انگوٹھی ڈالنے لگی جنہیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے پلو میں لینے لگے۔‘‘

بخاري، الصحيح، 1: 49، رقم: 98، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة

معلوم ہوا مجلس رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عورتیں بھی موجود تھیں لیکن کسی وجہ سے وہ وعظ ونصیحت نہ سن سکیں تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو باہر آ کر الگ وعظ فرمایا تو عورتوں نے اپنے زیورات صدقہ کر دیئے۔ اگلی حدیث مبارکہ میں باندی کو تعلیم دلانے کا دوگنا اجر وثواب بیان فرمایا ہے:

عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم: مَنْ کَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ...الخ

’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے پاس کوئی باندی ہو پھر وہ اسے مودب بنائے اور تعلیم دلائے، پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرے اس کے لیے دوگنا ثواب ہے۔‘‘

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 414، رقم: 19727، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. نسائي، السنن، 3: 312، رقم: 5502، بيروت: دار الکتب العلمية
  3. ابن ماجه، السنن، 1: 629، رقم: 1956، بيروت: دار الفکر

ہمارے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو باندی کی تعلیم کے لئے دوگنا اجر فرمایا ہے تو پھر اپنی حقیقی بیٹی کی تعلیم سے منع کیسے کیا جا سکتا ہے؟ درج ذیل حدیث مبا رکہ میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی، بلا تفریق فرمایا بہتر وہ ہی ہے جو قرآن کی تعلیم دے:

عَنْ عُثْمَانَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ خَيْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ.

’’حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرآن کریم سیکھے اور سکھائے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 4: 1919، رقم: 4739
  2. أبي داؤد، السنن، 2: 70، رقم: 1452
  3. ترمذي، السنن، 5: 173، رقم: 2907، بيروت: دار احياء التراث العربي

آقا علیہ السلام کی زندگی ہمارے لئے کامل نمونہ حیات ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ يَرْجُو اﷲَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اﷲَ کَثِيْرًاo

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔‘‘

الاحزاب، 33: 21

تو جب آقا علیہ السلام ہمارے لیے بہترین نمونہ حیات ہیں تو پھر ہمیں عورتوں کی تعلیم وتربیت کے معاملہ میں بھی آپ علیہ السلام کی پیروی کرنی چاہیے۔ آپ علیہ السلام نے تو عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے دن مقرر فرمایا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَتْ النِّسَاءُ لِلنَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَلَبَنَا عَلَيْکَ الرِّجَالُ فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ فَکَانَ فِيمَا قَالَ لَهُنَّ مَا مِنْکُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ ثَلَاثَةً مِنْ وَلَدِهَا إِلَّا کَانَ لَهَا حِجَابًا مِنْ النَّارِ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ وَاثْنَتَيْنِ فَقَالَ وَاثْنَتَيْنِ.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ عورتیں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئیں: آپ کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے۔ لہٰذا ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز کا وعدہ فرما لیا۔ ان سے ملے چنانچہ نصیحت فرمائی اور اوامر بتائے، ان کے ساتھ ہی ان سے فرمایا: تم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں جو اپنے تین بچے آگے بھیجے مگر وہ اس کے لیے جہنم سے آڑ ہو جائیں گے۔ ایک عورت عرض گزار ہوئی کہ دو بچے؟ فرمایا کہ دو بچے بھی۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 1: 50، رقم: 101
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 34، رقم: 11314
  3. ابن حبان، الصحيح، 3: 206، رقم: 2944، بيروت: مؤسسة الرسالة

ذیل میں بیان کردہ حدیث مبارکہ میں بھی مسلمان میں مرد وزن شامل ہیں نہ کہ صرف مسلمان مردوں کے لئے حکم صادر فرمایا ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علم کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘

(امام طبرانی نے یہ حدیث عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے)

  1. ابن ماجة، السنن، 1: 81، رقم: 224
  2. أبو يعلی، المسند، 5: 223، رقم: 2837، دمشق: دار المأمون للتراث
  3. طبراني، المعجم الکبير، 10: 195، رقم: 10439

بعض لوگ کالجز اور یونیورسٹیز میں مردوں کی موجودگی کو تعلیم نسواں کی راہ میں رکاوٹ بناتے ہیں جبکہ اسلام تو مرد وزن دونوں کو شرم وحیاء کا درس دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن وحدیث میں بیان کر دیا گیا ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَهُمْ ط اِنَّ اﷲَ خَبِيْرٌم بِمَا يَصْنَعُوْنَ.

’’آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔‘‘

النور، 24: 30

اس طرح عورتوں کے لئے حکم ہے:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُيُوْبِهِنَّص وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ.

’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دو پٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بنائو سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں۔‘‘

النور،24: 31

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ، قَالَ: رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرم وحیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 442، رقم: 9708
  2. نسائي، السنن، 6: 532، رقم: 11737
  3. عبد الرزاق، المصنف، 5: 212، رقم: 25341، بیروت: المکتب الاسلامي

لہٰذا اسلام بلا تفریق مردوں اور عورتوں کی تعلیم وتربیت کا قائل ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 17 April, 2024 03:34:29 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3891/