جواب:
لفظ صلوٰۃ اسم ہے جو فعل صَلَّی کا مصدر ہے۔ عربی لغت میں یہ لفظ کئی معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن محاورۂ عرب کی رُو سے اصطلاح کے قریب تر معنی دعا، نماز اور تسبیح کا ہے۔
ابن منظور، لسان العرب، 14 : 464، 465
اس اعتبار سے بندہ ذات باری تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے کرم اور فضل و رحمت کی خیرات طلب کرنے کے لیے خشوع اور خضوع کے ساتھ سراپا التجا رہے۔ اس کے اسی حق بندگی بجا لانے کے عمل کو صلوٰۃ یعنی نماز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کائناتِ ارضی و سماوی کی ہر مخلوق اپنے اپنے حسبِ حال بارگاہِ خداوندی میں صلوٰۃ و تسبیح اور تحمید میں مصروف نظر آتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَO
النور، 24 : 41
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے (بھی فضاؤں میں) پر پھیلائے ہوئے (اسی کی تسبیح کرتے ہیں)، ہر ایک (اللہ کے حضور) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیںo‘‘
لفظ صلوٰۃ کے متعدد معانی میں سے ایک معنی کسی چیز کو آگ کی تپش میں رکھ کر سیدھا کرنا بھی ہے۔
ابن منظور، لسان العرب، 14 : 468
یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کسی ٹیڑھی لکڑی کو سیدھا کرنا ہوتا ہے تو اسے آگ کے قریب لے جاتے ہیں اور وہ اس کی تپش سے نرم اور لچکدار ہو جاتی ہے جس کے بعد اسے سیدھا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ انسان میں بھی اس کے نفس امارہ کے سبب کجی ہوتی ہے اگر انسان دن میں پانچ مرتبہ اﷲ تعالیٰ کے حضور عجز و نیاز بجا لاتا رہے تو اس کے نفس کی کجی آتش قرب الٰہی کی حدت سے دور ہو جاتی ہے اور قربت بندگی کی انتہاؤں کو پہنچ کر بندے کے لیے معراج بن جاتی ہے۔ جہاں انسان دنیا و مافیہا کو بھول کر مشاہدہ حق کی لذت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔
پس نماز کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ زبان و دل اور ہاتھ پاؤں وغیرہ سے رب کائنات کی گوناگوں نعمتوں کا شکر ادا کرے اور اس خدائے رحمن و رحیم کی یاد کو عملاً دل میں بسا لے اور حسنِ مطلق کی حمد و ثناء، اسی کی یکتائی اور اسی کی بڑائی کا اقرار کرے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔