جواب:
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ اہلِ ایمان پر درود و سلام بھیجنا جائز ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ فرامینِ باری تعالیٰ ہیں:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.
آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
التَّوْبَة، 9: 103
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا.
وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے۔
الْأَحْزَاب، 33: 43
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو۔
النُّوْر، 24: 27
فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُون.
پھر جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) پر سلام کہا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے۔
النُّوْر، 24: 61
امام بخاری رحمہ اﷲ نے ’’ترجمۃ الباب‘‘ یوں قائم کیا ہے:
هَلْ يُصَلَّی عَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم؟
’’کیا نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسروں پر درود بھیجے؟‘‘
اور پھر اس باب کے تحت درج ذیل حدیث مبارکہ لائے ہیں:
عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ کَانَ إِذَا أَتَی رَجُلٌ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم بِصَدَقَتِهِ قَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ أَبِي أَوْفَی.
’’حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صدقہ لے کر حاضر ہوتا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: اے اللہ! اس پرصلوٰۃ (رحمت) نازل فرما۔ میرے والد ماجد صدقہ (ہدیہ) لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: اے اللہ! آل ابی اوفیٰ پر درود (رحمت)بھیج۔‘‘
امام ابو داؤد رحمہ اﷲ نے ’’ترجمۃ الباب‘‘ قائم کیا ہے:
الصَّلَاةِ عَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم.
’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسرے پر درود بھیجنا۔‘‘
اور اس باب کے ضمن میں درج ذیل حدیث مبارکہ نقل کی ہے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِرضی الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَی زَوْجِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَلَّی اﷲُ عَلَيْکِ وَعَلَی زَوْجِکِ.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوئی کہ میرے لیے اور میرے خاوند کے لئے دعا فرمائیں تو حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲتعالیٰ تم پر اور تمہارے خاوند پر صلوٰۃ (رحمت) نازل فرمائے۔‘‘
لہٰذا یہ بات تو طے ہوئی کہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور پر درود وسلام بھیج سکتے ہیں لیکن ہمیں آقاe کے امتی ہونے کے ناطے کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ آقاe کے ساتھ پوری امت کے صالحین کو شامل کرنا چاہیے تاکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے سب کو زیادہ سے زیادہ برکتیں حاصل ہوں۔ جیسے ہم پڑھتے ہیں۔
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِهِ وَصَحْبِهِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ.
یعنی جوبھی درود وسلام بھیجیں اُن میں جب ہم حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود وسلام بھیجیں گے تو آل محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں امت کے سارے صالحین آ جائیں گے، جو درج ذیل حدیث مبارکہ سے ثابت ہے:
عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم مَنْ آلُ مُحَمَّدٍ؟ فَقَالَ: کُلُّ تَقِيٍّ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا، آل محمد کون ہیں؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (میری امت کا) ہر پرہیزگار میری آل ہے۔‘‘
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔