جواب:
غیرمسلموں کے ساتھ لین دین کا معاملہ کرنا جائز ہے۔ فتح کے بعد خیبر کی زمین پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ بنونضیر کی طرح اہل خیبر کو بھی جلاوطن کردیں۔ لیکن یہودیوں نے یہ درخواست کی کہ ہمیں خیبر سے نہ نکالا جائے اور زمین ہمارے ہی قبضہ میں رہنے دی جائے اس کے بدلے ہم یہاں کی پیداوار کا آدھا حصہ آپ کو دیتے رہیں گے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور فرمالی۔ چنانچہ جب کھجوریں پک جاتیں اور غلہ تیار ہوجاتا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر بھیج دیتے وہ کھجوروں اور اناجوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کردیتے اور یہودیوں سے فرماتے کہ اس میں سے جو حصہ تم کو پسند ہو وہ لے لو۔ یہودی اس عدل پر حیران ہوکر کہتے تھے کہ زمین و آسمان ایسے ہی عدل سے قائم ہیں۔
بلاذری، فتوح البلدان، 27
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ:
أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم أَعْطَی خَيْبَرَ الْيَهُودَ عَلَی أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا وَلَهُمْ شَطْرُ مَا خَرَجَ مِنْهَا.
’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو دی کہ وہ اس میں محنت اور کاشتکاری کریں اور پیداوار سے نصف ان کے لیے ہوگا۔‘‘
لہٰذا دیگر کاروباری لین دین کی طرح غیرحربی کفار و مشرکین کو زمین ٹھیکہ یا بٹائی پر دینا جائز ہے۔ زمین مسلمانوں کی ملکیت ہونے کی وجہ سے اس پر شرعی احکام نافذ العمل ہوں گے اور اس میں سے عشر نکالنے کے بعد باقی ماندہ فصل فریقین کے درمیان تقسیم ہوگی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔